شمائل ترمذی - حدیث 163

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: ((أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 163

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن کا بیان میں ’’سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ گوشت لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دست (بونگ )پیش کی گئی اور یہ حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دانتوں سے کاٹ کر کھایا۔‘‘
تشریح : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’زراع‘‘ دست، بونگ اس لیے پسند تھی کہ وہ جلدی پک جاتی ہے اور کھانے میں نرم ہو تی ہے اور گندی جگہ سے دور ہو تی ہے۔ گذشتہ حدیث میں دانتوں سے نوچنے کے بجائے چھری سے کاٹنا مذکورہے اب دانتوں سے نوچنے کا ذکر ہے۔ دونوں جائز مگر مستحب دانتوں سے کاٹ کر کھانا ہے۔ کیونکہ اس میں تکبر نہیں ہے نیز تکلف اور تشبہ بالاعاجم سے اجتناب ہے۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب الأنبیاء، باب قول الله عزوجل ﴿ولقد أرسلنا نوحًا إلی قومه﴾(۶؍۳۳۴۰)، صحیح مسلم،کتاب الأیمان، باب إثبات الشفاعة (۱؍۳۲۷ برقم ۱۸۴،۱۸۶)، سنن ترمذي، أبواب الأطعمة (۴؍۱۸۳۷) وقال: حدیث حسن صحیح، مسند أحمد بن حنبل (۲؍۴۳۵)، إخلاق النبي صلى الله علیه وسلم لأبي الشیخ (ص: ۲۱۵)۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’زراع‘‘ دست، بونگ اس لیے پسند تھی کہ وہ جلدی پک جاتی ہے اور کھانے میں نرم ہو تی ہے اور گندی جگہ سے دور ہو تی ہے۔ گذشتہ حدیث میں دانتوں سے نوچنے کے بجائے چھری سے کاٹنا مذکورہے اب دانتوں سے نوچنے کا ذکر ہے۔ دونوں جائز مگر مستحب دانتوں سے کاٹ کر کھانا ہے۔ کیونکہ اس میں تکبر نہیں ہے نیز تکلف اور تشبہ بالاعاجم سے اجتناب ہے۔