كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ أَبِي صَخْرَةَ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: ضِفْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَأُتِيَ بِجَنْبٍ مَشْوِيٍّ، ثُمَّ أَخَذَ الشَّفْرَةَ فَجَعَلَ يَحُزُّ، فَحَزَّ لِي بِهَا مِنْهُ قَالَ: فَجَاءَ بِلَالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ فَأَلْقَى الشَّفْرَةَ فَقَالَ: ((مَا لَهُ تَرِبَتْ يَدَاهُ؟)) . قَالَ: وَكَانَ شَارِبُهُ قَدْ وَفَى، فَقَالَ لَهُ: ((أَقُصُّهُ لَكَ عَلَى سِوَاكٍ)) أَوْ ((قُصُّهُ عَلَى سِوَاكٍ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن کا بیان میں
’’سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : میں ایک ر ات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مہمانی پر گیا تو گوشت کا ایک بُھنا ہوا پہلو پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھری لے کر اسے کاٹنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے بھی اس سے (گوشت )کا ٹا، (اتنی دیر میں )اچانک سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نماز کی اطلاع دینے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری پھینک دی پھر فرمایا: اسے کیا ہو گیا ہے اس کے ہاتھ خاک آلود ہوں، راوی نے کہا کہ میری مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں نیچے مسواک رکھ کر انہیں کاٹ نہ دوں یا فرمایا: نیچے مسواک رکھ کر انہیں کاٹ دو۔ ‘‘
تشریح :
اس حدیث سے بہت سے فوائد حاصل ہو تے ہیں۔
٭ مہمان کی مہمان نوازی اور خدمت وتواضع کرنی چاہیے۔
٭ بُھنے ہوئے گوشت کو چھری سے کاٹ کر کھانا جائز ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں الفاظ ہیں۔
’’اِحْتَزَّ لِيْ مِنْ کَتِفِ شَاةٍ فَدُعِيَ إِلیٰ الصَّلٰوةِ فَأَلْقَاهَا وَالسِّکِّیْنَ الَّتِيْ یَحْتَزُّ بِهَا ثُمَّ قَامَ فَصَلَّی وَلَمْ یَتَوَضَّا۔‘‘( صحیح بخاري، کتاب الأطعمة، باب إذا حضر العشاء فلا یعجل عن عشاءه، حدیث:۵۴۶۲۔ صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب نسخ الوضوء مما مست النار، حدیث:۳۵۵۔)یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے بکری کے کندھے سے کاٹ کر مجھے دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لیے بلایا گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ( گوشت ) کو پھینک دیا اور اس چھری کو بھی پھینک دیا جس سے کاٹ رہے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، نماز پڑھی اور وضوء نہیں کیا، جبکہ سنن ابي داود اور شعب الایمان للبیهقي میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’لَا تَقْطَعُوْا اللَّحْمَ بِا لسِّکِیَنِ فَإِنَّهُ مِنْ صَنِیْعِ الْأَ عَاجِمِ وَانهَِشُوهُ فَإِنَّهُ أَهْنَأُ وَأَمْرَأُ‘‘ (سنن أبي داود، کتاب الأطعمة، باب في أکل اللحم، حدیث:۳۷۷۸۔ شعب الإیمان للبیهقي (۵۸۹۸) وقال أبي داود: ولیس هو بالقوی۔ سند میں ابومعشر نجیح راوی مجہول الحال ہے۔)کہ گوشت کو چھری سے نہ کاٹو، کیونکہ یہ عجمیوں کا کام ہے بلکہ تم اس کو اپنے دانتوں سے نوچو کیونکہ یہ زیادہ خوش ہضم اور خوشگوار ہے۔ بظاہر تعارض معلوم ہو تا ہے اس تعارض کو بایں طور رفع کیا جاسکتا ہے کہ امام ابوداؤد اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث قوی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو منع فرمایا اس کو اپنے عمل سے منسوخ کر دیا ہو یا یہ عمل بطورِ جواز کیا ہو اور نہی تنز یہی ہو۔ یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ نوچ کر کھانا زیادہ اچھا، اطیب اور عمدہ ہے۔
٭ مونچھیں زیادہ لمبی نہیں کرنی چاہیے ’’شَارِبُہُ‘‘ کی ضمیر مغیرہ کی طرف ہے کیونکہ سنن ابی داؤد کی روایت میں وکَانَ شَارِبَيَّ وَفیَ کہ میری مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں۔ اس حدیث سے امام نووی رحمہ اللہ کے اس قول کی تائید ہو تی ہے کہ مونچھوں کے کاٹنے میں زیادہ مبالغہ نہیں کرنا چاہتے، صرف اتنی کاٹی جائیں کہ ہونٹوں کی سرخی نظر آ نے لگے۔ مونچھیں بالکل منڈوا دینا بعض ائمہ کے نزدیک اچھا نہیں، امام مالک رحمہ اللہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ جو مونچھوں کو منڈوائے، اس کو بطور ادب سزا دی جائے۔
٭ کھانا کھانے سے وضوء نہیں ٹوٹتا، کھانا چاہے آگ پر تیار کیا جائے یا بغیر آگ کے تیار کیا جائے۔
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے، مسند أحمد بن حنبل (۴؍۲۵۲،۲۵۵)سنن نسائي (۴؍۱۵۳)، سنن أبي داؤد، کتاب الطهارة، باب ترك الوضوء مما مست النار، حدیث نمبر ۱۸۸، شرح السنة للبغوي (۱۱؍۲۸۴۸)۔
اس حدیث سے بہت سے فوائد حاصل ہو تے ہیں۔
٭ مہمان کی مہمان نوازی اور خدمت وتواضع کرنی چاہیے۔
٭ بُھنے ہوئے گوشت کو چھری سے کاٹ کر کھانا جائز ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں الفاظ ہیں۔
’’اِحْتَزَّ لِيْ مِنْ کَتِفِ شَاةٍ فَدُعِيَ إِلیٰ الصَّلٰوةِ فَأَلْقَاهَا وَالسِّکِّیْنَ الَّتِيْ یَحْتَزُّ بِهَا ثُمَّ قَامَ فَصَلَّی وَلَمْ یَتَوَضَّا۔‘‘( صحیح بخاري، کتاب الأطعمة، باب إذا حضر العشاء فلا یعجل عن عشاءه، حدیث:۵۴۶۲۔ صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب نسخ الوضوء مما مست النار، حدیث:۳۵۵۔)یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے بکری کے کندھے سے کاٹ کر مجھے دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لیے بلایا گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ( گوشت ) کو پھینک دیا اور اس چھری کو بھی پھینک دیا جس سے کاٹ رہے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، نماز پڑھی اور وضوء نہیں کیا، جبکہ سنن ابي داود اور شعب الایمان للبیهقي میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’لَا تَقْطَعُوْا اللَّحْمَ بِا لسِّکِیَنِ فَإِنَّهُ مِنْ صَنِیْعِ الْأَ عَاجِمِ وَانهَِشُوهُ فَإِنَّهُ أَهْنَأُ وَأَمْرَأُ‘‘ (سنن أبي داود، کتاب الأطعمة، باب في أکل اللحم، حدیث:۳۷۷۸۔ شعب الإیمان للبیهقي (۵۸۹۸) وقال أبي داود: ولیس هو بالقوی۔ سند میں ابومعشر نجیح راوی مجہول الحال ہے۔)کہ گوشت کو چھری سے نہ کاٹو، کیونکہ یہ عجمیوں کا کام ہے بلکہ تم اس کو اپنے دانتوں سے نوچو کیونکہ یہ زیادہ خوش ہضم اور خوشگوار ہے۔ بظاہر تعارض معلوم ہو تا ہے اس تعارض کو بایں طور رفع کیا جاسکتا ہے کہ امام ابوداؤد اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث قوی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو منع فرمایا اس کو اپنے عمل سے منسوخ کر دیا ہو یا یہ عمل بطورِ جواز کیا ہو اور نہی تنز یہی ہو۔ یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ نوچ کر کھانا زیادہ اچھا، اطیب اور عمدہ ہے۔
٭ مونچھیں زیادہ لمبی نہیں کرنی چاہیے ’’شَارِبُہُ‘‘ کی ضمیر مغیرہ کی طرف ہے کیونکہ سنن ابی داؤد کی روایت میں وکَانَ شَارِبَيَّ وَفیَ کہ میری مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں۔ اس حدیث سے امام نووی رحمہ اللہ کے اس قول کی تائید ہو تی ہے کہ مونچھوں کے کاٹنے میں زیادہ مبالغہ نہیں کرنا چاہتے، صرف اتنی کاٹی جائیں کہ ہونٹوں کی سرخی نظر آ نے لگے۔ مونچھیں بالکل منڈوا دینا بعض ائمہ کے نزدیک اچھا نہیں، امام مالک رحمہ اللہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ جو مونچھوں کو منڈوائے، اس کو بطور ادب سزا دی جائے۔
٭ کھانا کھانے سے وضوء نہیں ٹوٹتا، کھانا چاہے آگ پر تیار کیا جائے یا بغیر آگ کے تیار کیا جائے۔