شمائل ترمذی - حدیث 16

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي خَاتَمِ النُّبُوَّةِ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: أَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنِ الْجَعْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ يَقُولُ: ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ. فَمَسَحَ رَأْسِي وَدَعَا لِي بِالْبَرَكَةِ، وَتَوَضَّأَ، فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهِ، وَقُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ، فَنَظَرْتُ إِلَى الْخَاتَمِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، فَإِذَا هُوَ مِثْلُ زِرِّ الْحَجَلَةِ "

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 16

کتاب مہرِ نبوت کابیان ’’ سائب بن یزید فرماتے ہیں : مجھے میری خالہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا بھانجا تکلیف میں ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا باقی ماندہ پانی پیا۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت کے پیچھے کھڑا ہوا، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان مہر دیکھی، جو چکور کے انڈے جیسی تھی۔ ‘‘
تشریح : (( ذَهَبَتْ بِيْ خَالَتِيْ۔)) سیّد الحفاظ حافظ ابن حجر عقلانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان کی خالہ کا نام معلوم نہیں ہوسکا، البتہ ان کی والدہ محترمہ کا نام علبتہ بنت شریح تھا۔ (( فَمَسَحَ بِرَأْسِيْ وَدَعَالِيْ بِالْبَرَکَةِ۔)) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا، اور برکت کی دعا کی۔ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مسح کرنے اور دعا کرنے کو اپنے لیے بڑی سعادت سمجھتے تھےعطاء مولیٰ سائب کہتے ہیں کہ سیدنا سائب رضی اللہ عنہ کے سر پر کھوپڑی سے لے کر اگلے حصے تک بال سیاہ تھے اور سر کے پچھلے حصے رخساروں اور داڑھی کے بال سفید تھے، تو میں نے انھیں عرض کیا: میں نے آپ سے زیادہ سیاہ بال کسی کے نہیں دیکھے۔ تو وہ کہنے لگے: تمھیں معلوم ہے ایسے کیوں ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا تھا اور برکت کی دعا کی تھی، اس لیے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی والی جگہ کبھی بوڑھی نہیں ہوئی۔ (المعجم الکبیر للطبراني (۶۵۵۴) المعجم الأوسط للطبراني (۴۹۹۷)۔ دلائل النبوة للبیهقي (۶؍۴۲۰)۔) فوائد: ٭ اس حدیث سے یہ بات ثابت ہو تی ہے کہ عورتیں بچوں کو ساتھ لے کر معالج یا طبیب کے پاس جا سکتی ہیں۔ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ((ذَھَبَتْ بِيْ خَالَتِيْ۔)) ’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میری خالہ مجھے لے کر گئیں۔ ‘‘ ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ بڑی شفقت اور پیار سے پیش آتے تھے، کیونکہ سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ((فَمَسَحَ رَأْسِيْ۔)) ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ‘‘ جیسے بڑے بزرگ لوگ بچوں کو پیار سے بوسہ دیتے ہیں یا رخسارے چھوتے ہیں، اسی قبیل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سرپر دستِ شفقت پھیرا۔ ٭ کسی نیک اور صالح آدمی کے وضوء سے بچاہوا پانی پینا ثابت ہو رہا ہے۔
تخریج : امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں کتاب الطہارۃ، کتاب المرضی، کتاب الدعوات اور باب صفة النبي صلى الله عليه وسلم میں روایات کیا ہے۔ صحیح مسلم، باب صفة النبي صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث نمبر: ۲۳۴۵۔ المعجم الکبیر للطبراني، حدیث نمبر: ۶۶۸۰، ۲۲۸۲۔ سنن ترمذی، کتاب المناقب، حدیث نمبر: ۳۶۴۶۔ (( ذَهَبَتْ بِيْ خَالَتِيْ۔)) سیّد الحفاظ حافظ ابن حجر عقلانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان کی خالہ کا نام معلوم نہیں ہوسکا، البتہ ان کی والدہ محترمہ کا نام علبتہ بنت شریح تھا۔ (( فَمَسَحَ بِرَأْسِيْ وَدَعَالِيْ بِالْبَرَکَةِ۔)) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا، اور برکت کی دعا کی۔ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مسح کرنے اور دعا کرنے کو اپنے لیے بڑی سعادت سمجھتے تھےعطاء مولیٰ سائب کہتے ہیں کہ سیدنا سائب رضی اللہ عنہ کے سر پر کھوپڑی سے لے کر اگلے حصے تک بال سیاہ تھے اور سر کے پچھلے حصے رخساروں اور داڑھی کے بال سفید تھے، تو میں نے انھیں عرض کیا: میں نے آپ سے زیادہ سیاہ بال کسی کے نہیں دیکھے۔ تو وہ کہنے لگے: تمھیں معلوم ہے ایسے کیوں ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا تھا اور برکت کی دعا کی تھی، اس لیے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی والی جگہ کبھی بوڑھی نہیں ہوئی۔ (المعجم الکبیر للطبراني (۶۵۵۴) المعجم الأوسط للطبراني (۴۹۹۷)۔ دلائل النبوة للبیهقي (۶؍۴۲۰)۔) فوائد: ٭ اس حدیث سے یہ بات ثابت ہو تی ہے کہ عورتیں بچوں کو ساتھ لے کر معالج یا طبیب کے پاس جا سکتی ہیں۔ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ((ذَھَبَتْ بِيْ خَالَتِيْ۔)) ’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میری خالہ مجھے لے کر گئیں۔ ‘‘ ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ بڑی شفقت اور پیار سے پیش آتے تھے، کیونکہ سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ((فَمَسَحَ رَأْسِيْ۔)) ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ‘‘ جیسے بڑے بزرگ لوگ بچوں کو پیار سے بوسہ دیتے ہیں یا رخسارے چھوتے ہیں، اسی قبیل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سرپر دستِ شفقت پھیرا۔ ٭ کسی نیک اور صالح آدمی کے وضوء سے بچاہوا پانی پینا ثابت ہو رہا ہے۔