شمائل ترمذی - حدیث 158

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنِ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: إِنَّ خَيَّاطًا دَعَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَهُ، قَالَ أَنَسٌ: فَذَهَبْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى ذَلِكَ الطَّعَامِ فَقَرَّبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُبْزًا مِنْ شَعِيرٍ، وَمَرَقًا فِيهِ دُبَّاءٌ وَقَدِيدٌ، قَالَ أَنَسُ: ((فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَتَبَّعُ الدُّبَّاءَ حَوَالَيِ الْقَصْعَةِ)) فَلَمْ أَزَلْ أُحِبُّ الدُّبَّاءَ مِنْ يَوْمِئِذٍ

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 158

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن کا بیان میں ’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: ایک درزی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے پر بلایا، سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کھانے پر گیا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کی روٹی اور سالن پیش کیا جس میں شوربہ، کدّو اور خشک کیے ہوئے گوشت کے ٹکڑے تھے۔‘‘ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ پیالے کے کناروں سے کدّو کو تلاش کررہے ہیں تو اس دن سے میں ہمیشہ کدّو کو پسند کرتا ہوں۔‘‘
تشریح : ٭ حدیث الباب سے ثابت ہوا کہ اپنے سامنے سے کھانے کے بجائے برتن یا پیالے کے اطراف سے بھی کھانا لیا جاسکتا ہے حالانکہ دوسری روایت میں اس سے منع کیا ہے اور حکم ہے کہ ’’کُلْ بِیَمِیْنِكَ وَکُلْ مِمَّا یَلِیْكَ‘‘ (صحیح بخاري، کتاب الأطعمة، باب التسمیة علی الطعام، حدیث:۵۳۷۶۔ صحیح مسلم، کتاب الأشربة باب آداب الطعام والشراب، حدیث:۲۰۲۲۔)اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور جو اپنے سامنے ہے اس سے کھاؤ۔ بظاہر قول اور عمل میں تعارض محسوس ہو تا ہے لیکن حقیقت میں تعارض نہیں ہے بلکہ اپنے سامنے سے کھانے کا حکم اس صورت میں ہے کہ جب کھانا ایک ہی قسم کا ہو اور اگر کھانا کئی قسم پر ہو مثلا ً سالن میں ایک سے زیادہ چیزیں اکٹھی پکی ہوں تو تب دوسرے کے آگے سے بھی کھایا جاسکتا ہے۔ ٭ کدّو سے محبت کرنا بھی اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس دن سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مجھے کدّو سے محبت ہوگئی۔ مُحبٍّ صادق وہی ہو تا ہے جو محبوب کو بھی چاہے اور محبوب کی چاہت وپسند کو بھی چاہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مسلمان کے لیے بہت ہی بہتر ہے کہ وہ کدّو کو مرغوب سمجھے اور پسندیدہ غذا کے طور پر شوق ورغبت سے کھائے۔ ٭ حدیث الباب سے معلوم ہوا کہ دعوت قبول کرنی چاہیے۔ چاہے دعوت کرنے والا کوئی معمولی آدمی کیوں نہ ہو۔ ٭ نیز پتہ چلا کر اعلیٰ عظمتوں والے لوگ اپنے سے کم درجہ اور ادنی لوگوں کے ہاں جا کر ان کا کھانا کھاسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی دعوت قبول کرنا مسنون ہے۔ ٭ یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ آدمی اپنے خادم کو ساتھ لے جا سکتا ہے۔ ٭ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ دعوت دینے والا حسبِ توفیق دعوت کا اہتمام کرے، تکلّفات میں نہ پڑے۔ جیسا کہ صحابی رضی اللہ عنہ نے جو کی روٹی، شوربہ، کدّو اور گوشت پیش کیا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب پر کس قدر شفیق اور مہر بان تھے حدیث الباب سے واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھروں میں دعوتِ طعام کے لیے جاتے تھے۔ یہ متواضع اورخلیق آدمی کا انداز ہے جبکہ کبرونخوت میں ڈوبے ہوئے انسان کسی کے گھر کا کھانا کھانا اپنی حقارت جانتے ہیں۔ ٭ حدیث الباب سے پتہ چلا کہ درزی کا پیشہ کوئی بُرا نہیں، بلکہ اس پیشے کی کمائی بہتر ین رزقِ حلال ہے۔
تخریج : صحیح بخاری،کتاب الأطعمة (۹؍۵۳۷۹،۵۴۳۶،۵۴۳۷،۵۴۳۹)، صحیح مسلم، کتاب الأشربة (۳؍۱۴۴ برقم ۱۶۱۵)، سنن أبي داؤد،کتاب الأطعمة (۳؍۳۷۸۲)، سنن دارمي، کتاب الأطعمة (۲؍۲۰۵۰)، سنن ترمذي، أبواب الأطعمة (۴؍۱۸۵۰)وقال هذا حدیث حسن صحیح۔ ٭ حدیث الباب سے ثابت ہوا کہ اپنے سامنے سے کھانے کے بجائے برتن یا پیالے کے اطراف سے بھی کھانا لیا جاسکتا ہے حالانکہ دوسری روایت میں اس سے منع کیا ہے اور حکم ہے کہ ’’کُلْ بِیَمِیْنِكَ وَکُلْ مِمَّا یَلِیْكَ‘‘ (صحیح بخاري، کتاب الأطعمة، باب التسمیة علی الطعام، حدیث:۵۳۷۶۔ صحیح مسلم، کتاب الأشربة باب آداب الطعام والشراب، حدیث:۲۰۲۲۔)اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور جو اپنے سامنے ہے اس سے کھاؤ۔ بظاہر قول اور عمل میں تعارض محسوس ہو تا ہے لیکن حقیقت میں تعارض نہیں ہے بلکہ اپنے سامنے سے کھانے کا حکم اس صورت میں ہے کہ جب کھانا ایک ہی قسم کا ہو اور اگر کھانا کئی قسم پر ہو مثلا ً سالن میں ایک سے زیادہ چیزیں اکٹھی پکی ہوں تو تب دوسرے کے آگے سے بھی کھایا جاسکتا ہے۔ ٭ کدّو سے محبت کرنا بھی اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس دن سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مجھے کدّو سے محبت ہوگئی۔ مُحبٍّ صادق وہی ہو تا ہے جو محبوب کو بھی چاہے اور محبوب کی چاہت وپسند کو بھی چاہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مسلمان کے لیے بہت ہی بہتر ہے کہ وہ کدّو کو مرغوب سمجھے اور پسندیدہ غذا کے طور پر شوق ورغبت سے کھائے۔ ٭ حدیث الباب سے معلوم ہوا کہ دعوت قبول کرنی چاہیے۔ چاہے دعوت کرنے والا کوئی معمولی آدمی کیوں نہ ہو۔ ٭ نیز پتہ چلا کر اعلیٰ عظمتوں والے لوگ اپنے سے کم درجہ اور ادنی لوگوں کے ہاں جا کر ان کا کھانا کھاسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی دعوت قبول کرنا مسنون ہے۔ ٭ یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ آدمی اپنے خادم کو ساتھ لے جا سکتا ہے۔ ٭ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ دعوت دینے والا حسبِ توفیق دعوت کا اہتمام کرے، تکلّفات میں نہ پڑے۔ جیسا کہ صحابی رضی اللہ عنہ نے جو کی روٹی، شوربہ، کدّو اور گوشت پیش کیا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب پر کس قدر شفیق اور مہر بان تھے حدیث الباب سے واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھروں میں دعوتِ طعام کے لیے جاتے تھے۔ یہ متواضع اورخلیق آدمی کا انداز ہے جبکہ کبرونخوت میں ڈوبے ہوئے انسان کسی کے گھر کا کھانا کھانا اپنی حقارت جانتے ہیں۔ ٭ حدیث الباب سے پتہ چلا کہ درزی کا پیشہ کوئی بُرا نہیں، بلکہ اس پیشے کی کمائی بہتر ین رزقِ حلال ہے۔