شمائل ترمذی - حدیث 156

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: ((كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ الدُّبَّاءُ فَأُتِيَ بِطَعَامٍ، أَوْ دُعِيَ لَهُ فَجَعَلْتُ أَتَتَبَّعُهُ فَأَضَعُهُ بَيْنَ يَدَيْهِ لِمَا أَعْلَمُ أَنَّهُ يُحِبُّهُ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 156

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن کا بیان میں ’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کدّو بہت پسند تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک کھانا لایا گیا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی گئی تو میں اس میں سے کدّو تلاش کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھتا، کیونکہ میں بخوبی جانتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پسند فرماتے ہیں۔ ‘‘
تشریح : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سالن سے کدّو کے ٹکڑے تلاش کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرتے، معلوم ہوا کہ جب کھانا مختلف الانواع ہو تو اپنے سامنے سے کھانے کے بجائے اپنے ہاتھ کو دوسری جانب بھی بڑھایا جاسکتا ہے۔ نیز یہ ثابت ہوا کہ مہمان اپنے آگے سے کھانا اٹھا کر ایک دوسرے کو کوئی چیز دے سکتے ہیں۔ حکماء کہتے ہیں کہ کدّو میں یہ خصوصیت ہے کہ یہ عقل اور رطوبت معتدلہ میں اضافہ کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں وہ پوشیدہ راز ملحوظ رکھتے ہوئے اسے پسند فرمایا جس راز کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے خصوصیت سے یہی درخت حضرت یونس علیہ السلام کے لیے گرمی اور سردی سے محفوظ رکھنے کے لیے اور پرورش کرنے کے لیے پیدا فرمایا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کدّو کے بار ے میں فرمایا کہ یہ میرے بھائی یونس علیہ السلام کا درخت ہے اور بڑی اچھی غذا ہے(تفسیر الدر المنثور (۸؍۳۶۴) وکنز العمال (۴۰۹۹۰) بحوالہ دیلمی بمعناه۔) اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جب حضرت یونس علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش آئی اور جب آپ کو دریا میں پھینک دیا گیا تو ایک بہت بڑی مچھلی نے آپ کو سالم نگل لیا، منشائے ایزدی کے مطابق آپ وہاں تین دن یا اس سے زیادہ دنوں تک رہے، پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے مچھلی نے پانی سے نکل کر یونس علیہ السلام کو ریت کے میدان میں اگل دیا، مچھلی کے پیٹ کی حرارت کی وجہ سے آپ کی جلد نہایت نرم ہو چکی تھی، اس میدان میں کوئی سایہ بھی نہ تھا اور گرمی بھی شدت کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے کدّو کی بیل پیدا فرمائی۔ وَأَنْبَتْنَا عَلَیْهِ شَجَرَةً مِنْ یَّقْطِیْنٍ (الصافّات : ۱۴۶) ہم نے ان پر کدّو کی ایک بیل پیدا کی دی، اس بنا ء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ میرے بھائی یونس علیہ السلام کا درخت ہے۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب الأطعمة، باب من ناول أوقدم له صاحبه علی المائدة شیاء، صحیح مسلم،کتاب الأشربة باب جواز أکل المرق، مسند أحمد بن حنبل (۳؍۱۷۷ برقم ۲۷۳،۲۹۰)، سنن دارمي، کتاب الأطعمة (۲؍۲۰۵۱)، مسند أبي داؤد طیالسي(۲۶۶)، سنن الکبرٰی للنسائي (۴؍۱۵۵،۱۵۶)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سالن سے کدّو کے ٹکڑے تلاش کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرتے، معلوم ہوا کہ جب کھانا مختلف الانواع ہو تو اپنے سامنے سے کھانے کے بجائے اپنے ہاتھ کو دوسری جانب بھی بڑھایا جاسکتا ہے۔ نیز یہ ثابت ہوا کہ مہمان اپنے آگے سے کھانا اٹھا کر ایک دوسرے کو کوئی چیز دے سکتے ہیں۔ حکماء کہتے ہیں کہ کدّو میں یہ خصوصیت ہے کہ یہ عقل اور رطوبت معتدلہ میں اضافہ کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں وہ پوشیدہ راز ملحوظ رکھتے ہوئے اسے پسند فرمایا جس راز کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے خصوصیت سے یہی درخت حضرت یونس علیہ السلام کے لیے گرمی اور سردی سے محفوظ رکھنے کے لیے اور پرورش کرنے کے لیے پیدا فرمایا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کدّو کے بار ے میں فرمایا کہ یہ میرے بھائی یونس علیہ السلام کا درخت ہے اور بڑی اچھی غذا ہے(تفسیر الدر المنثور (۸؍۳۶۴) وکنز العمال (۴۰۹۹۰) بحوالہ دیلمی بمعناه۔) اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جب حضرت یونس علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش آئی اور جب آپ کو دریا میں پھینک دیا گیا تو ایک بہت بڑی مچھلی نے آپ کو سالم نگل لیا، منشائے ایزدی کے مطابق آپ وہاں تین دن یا اس سے زیادہ دنوں تک رہے، پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے مچھلی نے پانی سے نکل کر یونس علیہ السلام کو ریت کے میدان میں اگل دیا، مچھلی کے پیٹ کی حرارت کی وجہ سے آپ کی جلد نہایت نرم ہو چکی تھی، اس میدان میں کوئی سایہ بھی نہ تھا اور گرمی بھی شدت کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے کدّو کی بیل پیدا فرمائی۔ وَأَنْبَتْنَا عَلَیْهِ شَجَرَةً مِنْ یَّقْطِیْنٍ (الصافّات : ۱۴۶) ہم نے ان پر کدّو کی ایک بیل پیدا کی دی، اس بنا ء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ میرے بھائی یونس علیہ السلام کا درخت ہے۔