كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((كُلُوا الزَّيْتَ وَادَّهِنُوا بِهِ؛ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ)) قَالَ أَبُو عِيسَى: ((وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ كَانَ يَضْطَرِبُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ فَرُبَّمَا أَسْنَدَهُ، وَرُبَّمَا أَرْسَلَهُ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن کا بیان میں
امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم زیتون کا تیل (اپنے کھانے میں ملا کر ) کھاؤ اور اس کی ( اپنے جسم پر ) مالش کرو، کیونکہ یہ بابرکت درخت (کا پھل) ہے۔‘‘ ابوعیسیٰ (ترمذی رحمہ اللہ) فرماتے ہیں : اس حدیث کی سند میں راوی عبدالرزاق کو اضطراب ہو تا ہے کبھی اس کو مسند بیان کرتے ہیں اور کبھی مرسل بیان کرتے ہیں۔
تشریح :
اضطراب سے کیا مراد ہے ؟
حدیث کے الفاظ بعینہٖ وہی ہیں جو گذشتہ حدیث کے ہیں ان کی تشریح کے لیے گزشتہ حدیث ملاحظہ فرمائیں البتہ اس روایت میں اضطراب کے بارے میں کچھ وضاحت ہے کہ راوی عبدالرزاق کبھی اس روایت کو مسند بیان کرتے ہیں اور کبھی مرسل بیان کرتے ہیں ذیل میں اضطراب ملا خط فرمائیں :
اِضْطِرَاب: لغوی طور پر اضطراب کا مفہوم یہ ہے کہ کسی معاملہ کا بگڑجانا اور اس کے نظام میں خرابی آجانا، اِضْطَرَبَ الْمَوْجُ کا محاورہ استعمال ہو تا ہے یعنی پانی کی موجوں میں بہت زیادہ حرکات ہو نا جبکہ وہ ایک دوسری پر تیزی سے پلٹتی ہوں،اور اصطلاحا ً وہ حدیث جو مختلف اسالیب واسانید سے مروی ہو، جبکہ وہ قوت میں بھی مساوی ہوں۔ تفصیل اس تعریف کی یہ ہے کہ وہ حدیث جو کئی مختلف اسانید ومتون سے مروی ہو مگر ان میں ایسا تعارض ہو کہ کسی طرح مطابقت نہ دی جاسکے۔اور ساتھ ہی یہ تمام اسانید ومتون قوت ومرتبہ میں ایک دوسرے کے برابر ہوں اور کسی بھی اعتبار سے ان میں ترجیح ممکن نہ ہو۔ مضطرب کی دوقسمیں ہیں : مضطرب السند اور مضطرب المتن، تاہم سند کا اضطراب بہت زیادہ ہو تا ہے۔ مضطرب السند یہ ہے راویٔ حدیث کبھی حدیث کو مرسل بیان کرتا ہے اور کبھی مسند، کبھی موصول بیان کرتا ہے کبھی منقطع، یا کبھی مرفوع بیان کرتا ہے تو کبھی موقوف۔ جیسا کہ شمائل میں حدیث الباب ہے کہ عبدالرزاق کبھی اس روایت کو مسند بیان کرتے ہیں اور کبھی مرسل۔ اور مضطرب المتن یہ ہے کہ راوی کبھی الفاظ کو اثبات کے اندازمیں بیان کرتا اور کبھی اسی اثبات کی نفی کرتا ہے جیسا کہ سنن ترمذي میں روایت ہے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ فرمائی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’إِنَّ فِي الْمَالِ لَحَقًّا سِوَی الذَّکٰوةِ‘‘(سنن ترمذي، کتاب الزکاة، باب ما جاء أن في المال حقا سوی الزکاة، حدیث:۶۵۹۔) یعنی مال میں زکوٰۃ کے سوا بھی (صدقات وخیرات وغیرہ کا ) حق ہے اور سنن ابن ماجة میں اسی سند سے یوں مروی ہے کہ ’’لَیْسَ فِی الْمَالِ حَقٌّ سَوی الزَّکَاةِ‘‘ (سنن ابن ماجة، کتاب الزکاة، باب ما أدی زکاته لیس بکنز، حدیث:۱۷۸۹۔)کہ مال میں زکوٰۃکے سوا اور کوئی حق لازم نہیں ہے۔
حافظ عراقی فرماتے ہیں کہ یہ ایسا اضطراب ہے جس کی کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں : شرح منظومۃ القاب الحدیث (ص : ۱۲۷)، فتح الباقی بشرح الفیته العراقي (ص : ۲۰۴،۲۰۶)۔
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن ترمذي، أبواب الأطعمة باب في أکل الزیت (۴؍۱۸۵۱)وقال أبوعیسیٰ هذا حدیث لانعرفه إلا من حدیث عبدالرزاق عن معمر، وکان عبدالرزاق یضطرب في روایة هذاالحدیث فربما أسنده وربما أرسله، سنن ابن ماجة، کتاب الأطعمة (۲؍۳۳۱۹)، مستدرك حاکم (۲؍۲۲)وقال الحاکم صحیح علی شرط الشیخین، مصنف عبدالرزاق (۱۰؍۴۲۲)۔
اضطراب سے کیا مراد ہے ؟
حدیث کے الفاظ بعینہٖ وہی ہیں جو گذشتہ حدیث کے ہیں ان کی تشریح کے لیے گزشتہ حدیث ملاحظہ فرمائیں البتہ اس روایت میں اضطراب کے بارے میں کچھ وضاحت ہے کہ راوی عبدالرزاق کبھی اس روایت کو مسند بیان کرتے ہیں اور کبھی مرسل بیان کرتے ہیں ذیل میں اضطراب ملا خط فرمائیں :
اِضْطِرَاب: لغوی طور پر اضطراب کا مفہوم یہ ہے کہ کسی معاملہ کا بگڑجانا اور اس کے نظام میں خرابی آجانا، اِضْطَرَبَ الْمَوْجُ کا محاورہ استعمال ہو تا ہے یعنی پانی کی موجوں میں بہت زیادہ حرکات ہو نا جبکہ وہ ایک دوسری پر تیزی سے پلٹتی ہوں،اور اصطلاحا ً وہ حدیث جو مختلف اسالیب واسانید سے مروی ہو، جبکہ وہ قوت میں بھی مساوی ہوں۔ تفصیل اس تعریف کی یہ ہے کہ وہ حدیث جو کئی مختلف اسانید ومتون سے مروی ہو مگر ان میں ایسا تعارض ہو کہ کسی طرح مطابقت نہ دی جاسکے۔اور ساتھ ہی یہ تمام اسانید ومتون قوت ومرتبہ میں ایک دوسرے کے برابر ہوں اور کسی بھی اعتبار سے ان میں ترجیح ممکن نہ ہو۔ مضطرب کی دوقسمیں ہیں : مضطرب السند اور مضطرب المتن، تاہم سند کا اضطراب بہت زیادہ ہو تا ہے۔ مضطرب السند یہ ہے راویٔ حدیث کبھی حدیث کو مرسل بیان کرتا ہے اور کبھی مسند، کبھی موصول بیان کرتا ہے کبھی منقطع، یا کبھی مرفوع بیان کرتا ہے تو کبھی موقوف۔ جیسا کہ شمائل میں حدیث الباب ہے کہ عبدالرزاق کبھی اس روایت کو مسند بیان کرتے ہیں اور کبھی مرسل۔ اور مضطرب المتن یہ ہے کہ راوی کبھی الفاظ کو اثبات کے اندازمیں بیان کرتا اور کبھی اسی اثبات کی نفی کرتا ہے جیسا کہ سنن ترمذي میں روایت ہے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ فرمائی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’إِنَّ فِي الْمَالِ لَحَقًّا سِوَی الذَّکٰوةِ‘‘(سنن ترمذي، کتاب الزکاة، باب ما جاء أن في المال حقا سوی الزکاة، حدیث:۶۵۹۔) یعنی مال میں زکوٰۃ کے سوا بھی (صدقات وخیرات وغیرہ کا ) حق ہے اور سنن ابن ماجة میں اسی سند سے یوں مروی ہے کہ ’’لَیْسَ فِی الْمَالِ حَقٌّ سَوی الزَّکَاةِ‘‘ (سنن ابن ماجة، کتاب الزکاة، باب ما أدی زکاته لیس بکنز، حدیث:۱۷۸۹۔)کہ مال میں زکوٰۃکے سوا اور کوئی حق لازم نہیں ہے۔
حافظ عراقی فرماتے ہیں کہ یہ ایسا اضطراب ہے جس کی کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں : شرح منظومۃ القاب الحدیث (ص : ۱۲۷)، فتح الباقی بشرح الفیته العراقي (ص : ۲۰۴،۲۰۶)۔