شمائل ترمذی - حدیث 153

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ يُقَالُ: لَهُ عَطَاءٌ، عَنْ أَبِي أَسِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((كُلُوا الزَّيْتَ وَادَّهِنُوا بِهِ؛ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 153

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن کا بیان میں سیدنا ابواسید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم زیتون کھاؤ اور اس کا تیل استعمال کرو کیونکہ یہ بابرکت درخت ( کا پھل ) ہے۔ ‘‘
تشریح : زیتون کے فوائد وثمرات : زیتون کا تیل کھاؤ او ر اس کی بدن پر مالش کرو، مراد یہ ہے کہ اس کو بطورِ سالن، روٹی کے ساتھ کھاؤ ( ترجمہ الباب بھی یہی ہے ) اور چکنا ہٹ کے طور پر بدن پر بھی مالش کرو۔ یہ امر اباحت کے لیے ہے وجوب کے لیے نہیں، یعنی جس کو میسر آجائے وہ اسے استعمال کر ے، کیونکہ یہ بابرکت درخت سے ہے۔ اس کو بابرکت اس لیے کہا گیا ہے کہ اس سے بہت سے فوائد حاصل ہو تے ہیں اور ا س درخت کا کوئی جزء بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے۔ نیز اس کا وجود ایسی زمین اور علاقے میں ہے جہان اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کے لیے بہت زیادہ برکتیں رکھی ہیں بعض روایات میں آتا ہے کہ : ’’اس زیتون کے مبارک تیل کو اختیار کرو، اور اس سے علاج کرو، کیونکہ اس میں بواسیر کا بھی علاج ہے۔‘‘ (معجم کبیر طبراني(۱۷؍۲۴۷)۔ مجمع الزوائد (۵؍۱۰۰)۔ السلسلة الضعیفة (۱۹۴)۔)سیدنا ابوھر یرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’اس تیل کو کھانے میں بھی استعمال کرو اور بدن کی مالش کے لیے بھی استعمال کرو کیونکہ اس میں ستر بیماریوں کی شفاء ہے جن میں جذام (کوڑھ کو بیماری )بھی ہے۔‘‘( ابونعیم فی الطب (کنز العمال:۲۸۲۹۹)۔ السلسلة الضعیفة (۵۱۲)۔) کہا جاتا ہے کہ یہ درخت چالیس سال بعد پھل لاتا ہے اس کے بعض درختوں کی عمر دس ہزار سال ہو تی ہے اور بعض درخت اڑھائی ہزار سال کی لمبی عمر پاتے ہیں۔ زیتون کا تیل انسانی پٹھوں کے لیے نافع اور فالج کے مریضوں کے لیے، نیز بڑی عمر کے لوگوں کے لیے بطور مالش نہایت نفع مند ہے۔
تخریج : یہ حدیث حسن ہے سنن ترمذي، أبواب الأطعمة باب في أکل الذیت (۴؍۱۸۵۲)وقال حدیث غریب من هذا الوجه، إنما نعرفه من حدیث سفیان عن عبدالله بن عیسیٰ، سنن دارمي، کتاب الأطعمة (۲؍۲۰۵۷)، مسند أحمد بن حنبل (۳؍۴۹۷)، التاریخ الکبیر للبخاري(۶،کنی )، شرخ السنة للبغوي(۶؍۸۷)، مستدرك حاکم (۲؍۳۹۸) امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے اور امام ذھبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ پھر میزان الاعتدال میں فرماتے ہیں : عطا کو امام بخاری رحمہ اللہ نے لین الحدیث کہا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں عطاء شامی مقبول راوی ہے لیکن جب اس کی متابعت ہو جائے، اور اس حدیث میں عطا ء کی مطابعت ہو رہی ہے جیسا کہ سنن دارمي کی سند میں ہے لہٰذا یہ روایت حسن درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح اس کی متابعت آنیوالی حدیث سے بھی ہو رہی ہے۔ زیتون کے فوائد وثمرات : زیتون کا تیل کھاؤ او ر اس کی بدن پر مالش کرو، مراد یہ ہے کہ اس کو بطورِ سالن، روٹی کے ساتھ کھاؤ ( ترجمہ الباب بھی یہی ہے ) اور چکنا ہٹ کے طور پر بدن پر بھی مالش کرو۔ یہ امر اباحت کے لیے ہے وجوب کے لیے نہیں، یعنی جس کو میسر آجائے وہ اسے استعمال کر ے، کیونکہ یہ بابرکت درخت سے ہے۔ اس کو بابرکت اس لیے کہا گیا ہے کہ اس سے بہت سے فوائد حاصل ہو تے ہیں اور ا س درخت کا کوئی جزء بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے۔ نیز اس کا وجود ایسی زمین اور علاقے میں ہے جہان اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کے لیے بہت زیادہ برکتیں رکھی ہیں بعض روایات میں آتا ہے کہ : ’’اس زیتون کے مبارک تیل کو اختیار کرو، اور اس سے علاج کرو، کیونکہ اس میں بواسیر کا بھی علاج ہے۔‘‘ (معجم کبیر طبراني(۱۷؍۲۴۷)۔ مجمع الزوائد (۵؍۱۰۰)۔ السلسلة الضعیفة (۱۹۴)۔)سیدنا ابوھر یرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’اس تیل کو کھانے میں بھی استعمال کرو اور بدن کی مالش کے لیے بھی استعمال کرو کیونکہ اس میں ستر بیماریوں کی شفاء ہے جن میں جذام (کوڑھ کو بیماری )بھی ہے۔‘‘( ابونعیم فی الطب (کنز العمال:۲۸۲۹۹)۔ السلسلة الضعیفة (۵۱۲)۔) کہا جاتا ہے کہ یہ درخت چالیس سال بعد پھل لاتا ہے اس کے بعض درختوں کی عمر دس ہزار سال ہو تی ہے اور بعض درخت اڑھائی ہزار سال کی لمبی عمر پاتے ہیں۔ زیتون کا تیل انسانی پٹھوں کے لیے نافع اور فالج کے مریضوں کے لیے، نیز بڑی عمر کے لوگوں کے لیے بطور مالش نہایت نفع مند ہے۔