كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ الْقَاسِمِ التَّمِيمِيِّ، عَنْ زَهْدَمٍ الْجَرْمِيِّ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: فَقَدَّمَ طَعَامَهُ وَقَدَّمَ فِي طَعَامِهِ لَحْمَ دَجَاجٍ وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ أَحْمَرُ كَأَنَّهُ مَوْلًى قَالَ: فَلَمْ يَدْنُ فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: ((ادْنُ، فَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكَلَ مِنْهُ)) ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُهُ يَأْكُلُ شَيْئًا فَقَذِرْتُهُ فَحَلَفْتُ أَنْ لَا أَطْعَمَهُ أَبَدًا
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن کا بیان میں
’’زھدم الجرمی سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا کھانا لایا گیا او ر اس کھانے میں مرغی کا گوشت تھا۔ حاضرین میں بنو تیم اللہ کا سرخ رنگ کا ایک شخص بھی موجود تھا جو کہ آزاد شدہ غلام معلوم ہو تا تھا، وہ قریب نہ ہو ا تو سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قریب ہو جاؤ، یقیناً میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے کھاتے دیکھا ہے اس نے کہا : میں نے اسے کچھ (گندی ) چیز کھاتے دیکھا تو میں اس سے کراہت کرنے لگا تب میں نے قسم اٹھالی کہ میں اسے کبھی نہ کھاؤں گا۔ ‘‘
تشریح :
صوفیوں کی جہالت، تلبیسِ ابلیس :
معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرغ کا گوشت کھاتے تھے دیگر احادیث میں گوشت کی پسندیدگی اورمیٹھی چیز کوپسند کرنا بھی مذکور ہے دراصل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ یہ تھا کہ جب انہیں کچھ میسر آتا، تناول فرماکر اللہ تعالیٰ کا شکریہ اداکرتے اور جب کچھ نہ ملتا صبر کر لیتے، علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے تلبیسِ ابلیس میں لکھا ہے کہ بعض جاہل صوفی کھانا موجود ہو نے کے باوجود نہایت تھوڑا کھاتے ہیں اور چکناہٹ والی چیز یں بھی بہت ہی کم کھاتے ہیں تا کہ بدن خشک ہو جائے او راپنے وجود کو تکلیف دینے کے لیے اون کا لباس پہنتے ہیں اور ٹھنڈا پانی پینے سے پر ہیز کرتے ہیں مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ نہیں تھا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا، وہ تو جب انہیں کچھ نہ ملتا تو بھوکے ہی رہ لیتے اور جب کچھ مل جاتا تو کھالیتے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو گوشت کو پسند فرماتے تھے، اور مرغی کا گوشت بھی تناول فرماتے، اور میٹھی چیز بھی پسند فرماتے، میٹھا اورٹھنڈا پانی بھی نوش ِ جاں فرماتے۔ گرم پانی تو معدہ کو تکلیف دیتا ہے اور سیرا ب بھی نہیں کرتا۔
ایک صوفی نے کہا ! میں حلوہ نہیں کھاتا کیونکہ میں اس کا شکریہ نہیں اداکرسکتاتو حسن بصری رحمہ اللہ فرمانے لگے : یہ بیوقوف ہے۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کے ٹھنڈے پانی کا شکریہ اداکرسکتا ہے؟ سفیان ثوری رحمہ اللہ جب سفر پرجاتے تو بھُنا ہوا گوشت اور فالودہ اپنے ساتھ اٹھا لیتے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْ أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالَّطِیّبَا تِ مِنَ الرِّزَقِ﴾
’’کہہ دیجیے کہ کس نے اللہ تعالیٰ کی وہ زینت اور عمدہ کھانے حرام کر دیے ہیں جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالے ہیں۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا تھی کہ :
’’أَللَّهُمَّ اجْعَلْ حْبَّكَ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ۔‘‘( سنن ترمذي، أبواب الدعوات، باب (۷۴)، حدیث:۳۴۹۰۔ مستدرك حاکم (۲؍۴۳۳)۔)
’’اے اللہ تو اپنی محبت کو میرے دل میں ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب بنا دے۔ ‘‘
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے تخریج کے لیے ملا خطہ ہو حدیث نمبر ۱۵۰۔
صوفیوں کی جہالت، تلبیسِ ابلیس :
معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرغ کا گوشت کھاتے تھے دیگر احادیث میں گوشت کی پسندیدگی اورمیٹھی چیز کوپسند کرنا بھی مذکور ہے دراصل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ یہ تھا کہ جب انہیں کچھ میسر آتا، تناول فرماکر اللہ تعالیٰ کا شکریہ اداکرتے اور جب کچھ نہ ملتا صبر کر لیتے، علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے تلبیسِ ابلیس میں لکھا ہے کہ بعض جاہل صوفی کھانا موجود ہو نے کے باوجود نہایت تھوڑا کھاتے ہیں اور چکناہٹ والی چیز یں بھی بہت ہی کم کھاتے ہیں تا کہ بدن خشک ہو جائے او راپنے وجود کو تکلیف دینے کے لیے اون کا لباس پہنتے ہیں اور ٹھنڈا پانی پینے سے پر ہیز کرتے ہیں مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ نہیں تھا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا، وہ تو جب انہیں کچھ نہ ملتا تو بھوکے ہی رہ لیتے اور جب کچھ مل جاتا تو کھالیتے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو گوشت کو پسند فرماتے تھے، اور مرغی کا گوشت بھی تناول فرماتے، اور میٹھی چیز بھی پسند فرماتے، میٹھا اورٹھنڈا پانی بھی نوش ِ جاں فرماتے۔ گرم پانی تو معدہ کو تکلیف دیتا ہے اور سیرا ب بھی نہیں کرتا۔
ایک صوفی نے کہا ! میں حلوہ نہیں کھاتا کیونکہ میں اس کا شکریہ نہیں اداکرسکتاتو حسن بصری رحمہ اللہ فرمانے لگے : یہ بیوقوف ہے۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کے ٹھنڈے پانی کا شکریہ اداکرسکتا ہے؟ سفیان ثوری رحمہ اللہ جب سفر پرجاتے تو بھُنا ہوا گوشت اور فالودہ اپنے ساتھ اٹھا لیتے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْ أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالَّطِیّبَا تِ مِنَ الرِّزَقِ﴾
’’کہہ دیجیے کہ کس نے اللہ تعالیٰ کی وہ زینت اور عمدہ کھانے حرام کر دیے ہیں جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالے ہیں۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا تھی کہ :
’’أَللَّهُمَّ اجْعَلْ حْبَّكَ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ۔‘‘( سنن ترمذي، أبواب الدعوات، باب (۷۴)، حدیث:۳۴۹۰۔ مستدرك حاکم (۲؍۴۳۳)۔)
’’اے اللہ تو اپنی محبت کو میرے دل میں ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب بنا دے۔ ‘‘