شمائل ترمذی - حدیث 151

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ الْأَعْرَجُ الْبَغْدَادِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، عَنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ بْنِ سَفِينَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: ((أَكَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَحْمَ حُبَارَى)) وَفِيْ الْحَدِیْثِ دَلَالَةٌ عَلَی أَکْلِ الدَّجَاجِ وَأَ نَّهُ مِنَ الطَّیِّبَاتِ+

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 151

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن کا بیان میں ’’سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سرخاب کا گوشت کھایا۔‘‘
تشریح : حبارٰی (سرخاب )کی تعیین ٭ حباری مشہور پرندہ ہے۔ واحد و جمع، مذکر و مونث کے لیے یہی لفظ مستعمل ہے اہل مصر اس کو جرج کہتے ہیں اس کی اڑان بہت لمبی ہو تی ہے، قوت وطاقت میں اس پرندہ کی مثال دی جاتی ہے۔ یہ لمبے لمبے چکر لگاتا ہے۔ بصرہ میں اس کا شکار کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے پوٹے سے ایک سبز دانہ ملتا ہے جس سے بتم نام کا ایک درخت پیدا ہو تا ہے جو شام کے علاقوں میں ہے، اسی لیے یہ مثال بیان کی جاتی ہے کہ فلاں آدمی حباری سے بھی زیادہ مشکل سے ملتا ہے، جب اس کے پر کاٹ یا نوچ دیتے جائیں تو اگر ان کےاُگنے میں دیر ہو جائے تو اس دکھ میں مر جاتا ہے۔ یہ لمبی گردن والا خاکستری رنگ کا پرندہ ہے اس کی چونچ قدرے لمبی ہو تی ہے، اس کی پشت اور آنتوں میں خوراک جمع رہتی ہے جس میں باریک بیٹ ہو تی ہے، جب شکرا اس کے شکار پر ڈٹ جائے تو یہ اس کے پروں پر بیٹ کرتا ہے جس سے وہ اکھڑا جاتا ہے اور اڑنے سے رہ جاتا ہے اسی طرح آخر وہ شکر ا گر کر مر جاتا ہے یہ اس کا بہترین ہتھیار ہے یہ تمام پرندوں سے زیادہ خوراک حاصل کرتا ہے پھر بھی یہ بھوک سے مرجاتا ہے۔ اس کے بچے کو نہار کہتے ہیں اور کروان کا بچہ بھی کہتے ہیں، اس پر ندے کو لیل بھی کہتے ہیں اس کا گوشت بطخ اور مُرغ کے بین بین تاثیر رکھتا ہے۔ میرک شاہ کہتے ہیں : حماقت میں اس پرندے کی مثال بیان کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہر جانور اپنے بچوں سے محبت کرتا ہے یہاں تک کہ حبارٰی بھی، سیدنا انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنی آدم کے گناھوں کی وجہ سے لاغرہو کر مرجاتا ہے۔ یعنی ان کے گناہوں کی وجہ سے بارش بند ہو جاتی ہے تو یہ پرندہ بھوک وپیاس سے مرجاتا ہے۔ (دیکھئے: کتاب الحیوان للجاحظ (۱؍۴۸۱) ۔ حیاة الحیوان للدمیري (۱؍۲۲۳،۲۲۴)۔) حدیث الباب اگرچہ نصف ہے لیکن اس میں بیان ہونے والا مضمون درست ہے کہ عمدہ کھانا کھانا عین سنت ہے۔ جب اللہ تعالیٰ عنایت فرمادیں تو اس کے شکر اور حمد کے ساتھ اسے کھانا چاہیے۔بعض لوگ سب کچھ ہو نے کے باوجود نمک مرچ اور پانی کا شوربہ بنا کر خود کھاتے اور دوسروں کو کھلاتے ہیں یہ خلاف سنت ہے بلکہ نعمت باری تعالیٰ کی توہین اور کفران ہے اور وَأَمَّا بِنّعْمَتهِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ کے خلاف ہے۔ علامہ علی القاری الحنفی نے جمع الوسائل فی شرح الشمائل میں اس مقام پر ایسی آیات و احادیث ذکر کی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے استعمال اور ان سے استفادہ پر دال ہیں فلیرجع من شاء التفصیل (جمع الوسائل،۲۵۰)
تخریج : یہ حدیث ضعیف ہے۔ سنن أبي داؤد، کتاب الأطعمة (۳؍۳۷۹۷)، سنن ترمذي، أبواب الأطعمة (۴؍۱۸۲۸) وقال أبوعیسیٰ الترمذی: هذاحدیث غریب لا نعرفه إلامن هذا الوجه ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، یہ حدیث غریب ہے اس سند کے علاوہ ہم اس کی کوئی دوسری سند نہیں جانتے، اس سند میں ابراہیم بن عمر بن سفینہ ہے جنہیں امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ کسی حال میں بھی اس کی روایت سے دلیل نہیں لی جاسکتی۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کی اسناد ضعیف ہے، اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو تلخیص الحبیر (۴؍۱۷۱) میں ضعیف قرار دیا ہے، امام ابن حبان رحمہ اللہ اور امام عقیلی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔ حبارٰی (سرخاب )کی تعیین ٭ حباری مشہور پرندہ ہے۔ واحد و جمع، مذکر و مونث کے لیے یہی لفظ مستعمل ہے اہل مصر اس کو جرج کہتے ہیں اس کی اڑان بہت لمبی ہو تی ہے، قوت وطاقت میں اس پرندہ کی مثال دی جاتی ہے۔ یہ لمبے لمبے چکر لگاتا ہے۔ بصرہ میں اس کا شکار کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے پوٹے سے ایک سبز دانہ ملتا ہے جس سے بتم نام کا ایک درخت پیدا ہو تا ہے جو شام کے علاقوں میں ہے، اسی لیے یہ مثال بیان کی جاتی ہے کہ فلاں آدمی حباری سے بھی زیادہ مشکل سے ملتا ہے، جب اس کے پر کاٹ یا نوچ دیتے جائیں تو اگر ان کےاُگنے میں دیر ہو جائے تو اس دکھ میں مر جاتا ہے۔ یہ لمبی گردن والا خاکستری رنگ کا پرندہ ہے اس کی چونچ قدرے لمبی ہو تی ہے، اس کی پشت اور آنتوں میں خوراک جمع رہتی ہے جس میں باریک بیٹ ہو تی ہے، جب شکرا اس کے شکار پر ڈٹ جائے تو یہ اس کے پروں پر بیٹ کرتا ہے جس سے وہ اکھڑا جاتا ہے اور اڑنے سے رہ جاتا ہے اسی طرح آخر وہ شکر ا گر کر مر جاتا ہے یہ اس کا بہترین ہتھیار ہے یہ تمام پرندوں سے زیادہ خوراک حاصل کرتا ہے پھر بھی یہ بھوک سے مرجاتا ہے۔ اس کے بچے کو نہار کہتے ہیں اور کروان کا بچہ بھی کہتے ہیں، اس پر ندے کو لیل بھی کہتے ہیں اس کا گوشت بطخ اور مُرغ کے بین بین تاثیر رکھتا ہے۔ میرک شاہ کہتے ہیں : حماقت میں اس پرندے کی مثال بیان کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہر جانور اپنے بچوں سے محبت کرتا ہے یہاں تک کہ حبارٰی بھی، سیدنا انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنی آدم کے گناھوں کی وجہ سے لاغرہو کر مرجاتا ہے۔ یعنی ان کے گناہوں کی وجہ سے بارش بند ہو جاتی ہے تو یہ پرندہ بھوک وپیاس سے مرجاتا ہے۔ (دیکھئے: کتاب الحیوان للجاحظ (۱؍۴۸۱) ۔ حیاة الحیوان للدمیري (۱؍۲۲۳،۲۲۴)۔) حدیث الباب اگرچہ نصف ہے لیکن اس میں بیان ہونے والا مضمون درست ہے کہ عمدہ کھانا کھانا عین سنت ہے۔ جب اللہ تعالیٰ عنایت فرمادیں تو اس کے شکر اور حمد کے ساتھ اسے کھانا چاہیے۔بعض لوگ سب کچھ ہو نے کے باوجود نمک مرچ اور پانی کا شوربہ بنا کر خود کھاتے اور دوسروں کو کھلاتے ہیں یہ خلاف سنت ہے بلکہ نعمت باری تعالیٰ کی توہین اور کفران ہے اور وَأَمَّا بِنّعْمَتهِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ کے خلاف ہے۔ علامہ علی القاری الحنفی نے جمع الوسائل فی شرح الشمائل میں اس مقام پر ایسی آیات و احادیث ذکر کی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے استعمال اور ان سے استفادہ پر دال ہیں فلیرجع من شاء التفصیل (جمع الوسائل،۲۵۰)