شمائل ترمذی - حدیث 150

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا هَنَّادٌ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ زَهْدَمٍ الْجَرْمِيِّ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، فَأُتِيَ بِلَحْمِ دَجَاجٍ فَتَنَحَّى رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ فَقَالَ: مَا لَكَ؟ فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُهَا تَأْكُلُ شَيْئًا فَحَلَفْتُ أَنْ لَا آكُلَهَا قَالَ: ((ادْنُ فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ لَحْمَ دَجَاجٍ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 150

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن کا بیان میں ’’زھدم الجرمی سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو مرغی کا گوشت لایا گیا تو ایک آدمی کھانے والوں میں سے الگ ہو گیا، (ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے )کہا : تجھے کیا ہوا؟ کہنے لگا: میں نے اس کو ایک بدبو دار چیز کھاتے ہوئے دیکھا تو میں نے قسم کھالی کہ اسے کبھی نہ کھاؤں گا۔ تو (سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے) کہا : قریب ہو جاؤ، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مرغی کا گوشت کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ ‘‘
تشریح : طبیعت کے خلاف بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جائے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : لَا یُوْمِنُ أَحَدُ کُمْ حَتَّی تَکُوْنَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ (شرح السنة للبغوي(۱۰۴)۔)یعنی تم میں سے اس وقت تک کوئی بھی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میر ی لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہو جائیں۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حدیث ہے کہ ’’ جب تم کسی بات پر قسم کھا لو اور اس کے خلاف دوسری بات تم کو پسند ہوا اور بہتر ہو تو جس بات سے قسم کھائی تھی اس کو کر لو اور قسم کا کفارہ دے دو۔‘‘( صحیح بخاري، کتاب الإیمان والنذور، باب قول اللّٰه تعالی ﴿لا یؤاخذکم اللّٰه...﴾، حدیث:۶۶۲۲۔ صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب ندب من حلف یمینًا...، حدیث:۱۶۵۲۔) جلّالہ کا حکم ہو تو: ’’إِنِّي رَأَیْتُهَا تَا کُلُ شَیْئًا نَتِنًا‘‘ میں نے اسے دیکھا کہ وہ ایک بدبودار چیز کھا رہی ہے۔ بد بودار چیز سے مراد گندی، نجس اور غلیظ اشیاء ہو سکتی ہیں۔ بعض جانوروں کو گندی اور نجس اشیاء کھانے کی لت پڑجاتی ہے ایسے جانوروں کا نام جلاّلہ ہے ان کا گوشت کھانامکر وہ ہے۔ گندگی کھانے کا عادی جانور دراصل ایسا جانور ہو جاتا ہے جس کی قوتِ شامہ ( سونگھنے کی طاقت ) خراب ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اُسے اچھی خوراک پسند نہیں آتی بلکہ وہ گندی اور نجس اشیاء پر منہ مارتا پھرتاہے ان کا حکم یہ ہے کہ اگر بڑا جانور ہو تو انہیں ذبح کرنے سے قبل دس روز تک محبوس رکھا جائے اور پاکیزہ خوراک کھلائی جائے، اس عرصہ میں ان کے جسم سے نجاست اور گندگی کے اثرات زائل ہو جائیں گے اور ان کے گوشت سے کراہت کا حکم بھی سلب ہو جائے گا اور اگر چھوٹا جانور مثلا ً مرغی بطخ وغیرہ ہو تو انہیں تین روز تک محبوس رکھا جائے اور پاکیزہ خوراک دی جائے، تین دن تک اس سے بھی جلا ّلہ کا نام اور حکم ختم ہو جائے گا اور اسے کھانا بلا کراہت جائز ہو جائے گا۔ مرغی بالعموم جلا ّلہ کے حکم میں نہیں آتی لہٰذا اس کا گوشت بھی بلا کراہت جائز ہے۔ البتہ ایسی مرغی جو غلاظت کھانے کی عادی ہوجائے یا غلاظت پر ہی چھوڑ دی گئی ہو تو وہ جلّالہ ہے اس کو تین دن تک محبوس رکھا جائے، اس دوران اسے پاکیزہ غذا دینا مامور ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بھی اس شخص کو عملاً یہی مسئلہ بتایا کہ مرغی کا گوشت بالعموم بلا کراہت جائز ہے اور جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اسے تناول فرمایا ہے تب تو اس پر نہ کھانے کی قسم اٹھانا مناسب نہیں ہے۔ لہذا قسم کا کفارہ دے دو اور اسے کھاؤ۔ حدیث الباب سے معلوم ہوا کہ شریعت طبیعت پر مقدم ہے، اور میزبان کے فرائض میں سے ہے کہ وہ مہمان سے پوچھے کہ تم کھانا کیوں نہیں کھارہے ہو۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب الذبائح (۹؍۵۵۱۸)، صحیح مسلم،کتاب الإیمان (۳؍۹، برقم ۱۲۷۰)، سنن ترمذي، أبواب الأطعمة (۴؍۱۸۲۷)، وقال: حدیث حسن صحیح، سنن نسائي،کتاب الصید (۷؍۲۰۶)، سنن دارمي، کتاب الأطعمة (۲؍۲۰۵۵)، مسند أحمد بن حنبل (۳؍۳۰۱،۳۹۷،۴۰۱،۴۰۶)، أخلاق النبي صلى الله عليه وسلم لأبي الشیخ (ص : ۲۱۳)۔ طبیعت کے خلاف بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جائے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : لَا یُوْمِنُ أَحَدُ کُمْ حَتَّی تَکُوْنَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ (شرح السنة للبغوي(۱۰۴)۔)یعنی تم میں سے اس وقت تک کوئی بھی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میر ی لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہو جائیں۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حدیث ہے کہ ’’ جب تم کسی بات پر قسم کھا لو اور اس کے خلاف دوسری بات تم کو پسند ہوا اور بہتر ہو تو جس بات سے قسم کھائی تھی اس کو کر لو اور قسم کا کفارہ دے دو۔‘‘( صحیح بخاري، کتاب الإیمان والنذور، باب قول اللّٰه تعالی ﴿لا یؤاخذکم اللّٰه...﴾، حدیث:۶۶۲۲۔ صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب ندب من حلف یمینًا...، حدیث:۱۶۵۲۔) جلّالہ کا حکم ہو تو: ’’إِنِّي رَأَیْتُهَا تَا کُلُ شَیْئًا نَتِنًا‘‘ میں نے اسے دیکھا کہ وہ ایک بدبودار چیز کھا رہی ہے۔ بد بودار چیز سے مراد گندی، نجس اور غلیظ اشیاء ہو سکتی ہیں۔ بعض جانوروں کو گندی اور نجس اشیاء کھانے کی لت پڑجاتی ہے ایسے جانوروں کا نام جلاّلہ ہے ان کا گوشت کھانامکر وہ ہے۔ گندگی کھانے کا عادی جانور دراصل ایسا جانور ہو جاتا ہے جس کی قوتِ شامہ ( سونگھنے کی طاقت ) خراب ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اُسے اچھی خوراک پسند نہیں آتی بلکہ وہ گندی اور نجس اشیاء پر منہ مارتا پھرتاہے ان کا حکم یہ ہے کہ اگر بڑا جانور ہو تو انہیں ذبح کرنے سے قبل دس روز تک محبوس رکھا جائے اور پاکیزہ خوراک کھلائی جائے، اس عرصہ میں ان کے جسم سے نجاست اور گندگی کے اثرات زائل ہو جائیں گے اور ان کے گوشت سے کراہت کا حکم بھی سلب ہو جائے گا اور اگر چھوٹا جانور مثلا ً مرغی بطخ وغیرہ ہو تو انہیں تین روز تک محبوس رکھا جائے اور پاکیزہ خوراک دی جائے، تین دن تک اس سے بھی جلا ّلہ کا نام اور حکم ختم ہو جائے گا اور اسے کھانا بلا کراہت جائز ہو جائے گا۔ مرغی بالعموم جلا ّلہ کے حکم میں نہیں آتی لہٰذا اس کا گوشت بھی بلا کراہت جائز ہے۔ البتہ ایسی مرغی جو غلاظت کھانے کی عادی ہوجائے یا غلاظت پر ہی چھوڑ دی گئی ہو تو وہ جلّالہ ہے اس کو تین دن تک محبوس رکھا جائے، اس دوران اسے پاکیزہ غذا دینا مامور ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بھی اس شخص کو عملاً یہی مسئلہ بتایا کہ مرغی کا گوشت بالعموم بلا کراہت جائز ہے اور جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اسے تناول فرمایا ہے تب تو اس پر نہ کھانے کی قسم اٹھانا مناسب نہیں ہے۔ لہذا قسم کا کفارہ دے دو اور اسے کھاؤ۔ حدیث الباب سے معلوم ہوا کہ شریعت طبیعت پر مقدم ہے، اور میزبان کے فرائض میں سے ہے کہ وہ مہمان سے پوچھے کہ تم کھانا کیوں نہیں کھارہے ہو۔