شمائل ترمذی - حدیث 148

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ: ((أَلَسْتُمْ فِي طَعَامٍ وَشَرَابٍ مَا شِئِتُمْ؟ لَقَدْ رَأَيْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا يَجِدُ مِنَ الدَّقَلِ مَا يَمْلَأُ بَطْنَهُ وَقُتَیْبَةُ لَمْ یَذْکُرْ بِهٖ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 148

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن کا بیان میں سماک بن حرب رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : کیا تم چاہت اور مرضی کے کھانے پینے میں ( مگن ) نہیں ہو؟ حالانکہ میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نکمی اور گھٹیا کھجوریں اتنی بھی نہ ہو تیں جن سے وہ شکم سیری کر سکیں۔
تشریح : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر قناعت، زہد اور ریاضت ومجاہد ہ کی زندگی اختیار کیے ہوئے تھے اس کا بیان ہے کہ خشک کھجوروں پر گزر اوقات فرمالیتے۔ حدیث میں ’’دَقَلٌ‘‘ کا لفظ آیا ہے جس سے مراد وہ بچا کھچا مال ہے جو دوکاندار سے عمدہ مال بک جانے کے بعد ردی مال کے طور پر باقی رہ جاتا ہے مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ردّی قسم کی بچی کھچی کھجوریں بھی پیٹ بھر کر کھانے کو میسر نہ تھی، اب جبکہ ہر طرح کی کشادگی اور فراخی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتیں عام و تام ہیں تو ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر یہ اداکرنا چاہیے۔ ’’لَقَدْ رَأَیْتُ نَبِیَّکُمْ‘‘ صحابیٔ رسول نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو مخاطبین کی طرح مخاطِب کے بھی نبی ہیں پھر یہ کیوں کہا کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت نعمان رضی اللہ عنہ کے نبی نہیں تھے ؟ تو شارحین نے لکھا ہے کہ اس سے مقصد ترغیب وتنبیہ ہے کہ جب تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی اور ان کی محبت کے دعویٰ دار ہو تو دیکھو انہوں نے کس طرح زندگی گزاری اور تم کیا کر رہے ہو۔
تخریج : صحیح مسلم، کتاب الزهد (۴؍۳۴ برقم ۲۲۸۴)سنن ترمذي، أبواب الزهد عن رسول الله صلى الله علیه وسلم (۴؍۲۳۷۲) وقال حدیث صحیح، مسند أحمد بن حنبل (۴؍۲۶۸) طبقات ابن سعد (۱؍۴۰۶) شعبہ نے اس روایت کو سماک بن حرب قال سمعت النعمان یقول سمعت عمر بن الخطاب کے طریق سے بیان کیا ہے گویا انہوں نے اسی رو ایت کو مسندِ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ میں درج کیا ہے۔ دیکھئے سنن ابن ماجة، کتاب الزهد (۲؍۴۱۴۶)، مسند أحمد بن حنبل (۱؍۲۴)، مسند أبوداؤد طیالسی (ص : ۱۲)، طبقات ابن سعد (۱؍۴۰۵،۴۰۶)، صحیح مسلم،کتاب الزهد (۴؍۳۶، برقم ۲۲۸۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر قناعت، زہد اور ریاضت ومجاہد ہ کی زندگی اختیار کیے ہوئے تھے اس کا بیان ہے کہ خشک کھجوروں پر گزر اوقات فرمالیتے۔ حدیث میں ’’دَقَلٌ‘‘ کا لفظ آیا ہے جس سے مراد وہ بچا کھچا مال ہے جو دوکاندار سے عمدہ مال بک جانے کے بعد ردی مال کے طور پر باقی رہ جاتا ہے مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ردّی قسم کی بچی کھچی کھجوریں بھی پیٹ بھر کر کھانے کو میسر نہ تھی، اب جبکہ ہر طرح کی کشادگی اور فراخی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتیں عام و تام ہیں تو ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر یہ اداکرنا چاہیے۔ ’’لَقَدْ رَأَیْتُ نَبِیَّکُمْ‘‘ صحابیٔ رسول نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو مخاطبین کی طرح مخاطِب کے بھی نبی ہیں پھر یہ کیوں کہا کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت نعمان رضی اللہ عنہ کے نبی نہیں تھے ؟ تو شارحین نے لکھا ہے کہ اس سے مقصد ترغیب وتنبیہ ہے کہ جب تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی اور ان کی محبت کے دعویٰ دار ہو تو دیکھو انہوں نے کس طرح زندگی گزاری اور تم کیا کر رہے ہو۔