كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ عَسْكَرٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((نِعْمَ الْإِدَامُ الْخَلُّ)) قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فِي حَدِيثِهِ: ((نِعْمَ الْإِدَامُ أَوِ الْأُدْمُ الْخَلُّ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن کا بیان میں
ام المؤمنین سیدتُنا عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سر کہ ایک عمدہ سالن ہے۔عبداللہ بن عبدالرحمان نے اپنی حدیث میں ’’نعم الادم‘‘ یا ’’الادام‘‘ کہا ہے۔‘‘
تشریح :
سرکہ ایک اچھا سالن ہے، سرکہ قدرے ترش مگر لذید ہو تا ہے، بے حد نافع اور مفید چیز ہے۔ ہاضم بھی اور پیٹ کے کیڑوں کے لیے ہالک بھی ہے۔
حدیث الباب کا تکملہ
یہ فرمان نبوی دراصل ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے تفصیلی واقعہ سیدہ ام ھانی رضی اللہ عنہا کی روایت میں نقل ہو ا ہے، سیدہ ام ھانی رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہن تھیں، ان کا گھر بیت اللہ کے بالکل جوار میں تھا، جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم فاتح کی حیثیت سے مکتہ المکرمہ میں داخل ہوئے، اسی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ ام ھانی کے گھر تشریف فرما ہوئے، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا اور چادر لپیٹ کر آٹھ رکعت نماز ادافرمائی، فتح مکہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا شکر یہ اداکیا، یہ چاشت کا وقت تھا، نماز سے فراعت کے بعد دریافت فرمایا: کچھ کھانے کو ہے ؟ جو اب میں عرض کیا گیا، نان جویں کے چند خشک ٹکڑے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی جان نوش فرمانے کے لیے طلب کیے اور پانی میں بھگوکر نرم کر لیے، پھر ادام یعنی سالن کا پوچھا تو عرض کیا گیا کہ سالن تو نہیں ہے البتہ کچھ سر کہ موجود ہے تب ارشاد فرمایا : نِعْمَ الْاِدَامُ الْخَلُّ پھر نمک منگوایا، سرکہ میں ڈالا، اور اس کے ساتھ نان جویں جان ِ نوش فرمایا۔( سنن ترمذي، أبواب الأطعمة، باب ما جاء في الخل، حدیث:۱۸۴۱ باختصار۔ مستدرك حاکم (۴؍۵۴)۔) اللہ اکبر۔
کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساہو تو سامنے آئے
تاریخِ عالم کے اوراق کھنگال ڈالیے، اس اندازِ فتح کی کوئی مثال نہیں مل سکے گی اور یہ تاریخِ عالَم کا اعجوبہ اور سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا انوکھا باب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ المکرمہ میں فاتحانہ داخل ہو تے ہیں تو نہ سلاطین کی طرح خیمے قائم کیے گئے، نہ فرش وبساط شاہانہ سے زمین آراستہ کی گئی، نہ شادیانے بجائے گئے اور نہ جشن شاہانہ کی تیاریاں کی گئیں، نہ عیش وطرب کے گانے گائے گئے اور نہ طبل و دُہل کے غلغلے اور قرناء وبوق کے ترانے الاپے گئے۔ نہ فوج ظفر موج کے لیے محفلِ کباب و شباب لگائی گئی اور نہ اکل وشرب کے میدان لگائے گئے بلکہ کھانے کے لیے خشک روٹی کے چند ٹکڑے میسر آئے جنہیں سرکہ کے ساتھ نوش فرمالیا اور بقدرِ کفاف گزر اوقات کر لیا، آج فاتحین کے کردار کو دیکھا جائے تو الامان والحفیظ ! حال ہی میں امریکی ویورپی سامرج نے ’’امنِ عامہ ‘‘ کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر جو کردار اداکیا ہے اسے جنگِ خلیج، بوسنیا، روانڈا، عراق اور افغانستان میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ان ممالک میں انہوں نے انسان دوستی، ہمدردی اور امنِ عامہ کے خلاف ایسے سنگیں جرائم کیے ہیں جن کی مثال تاریخِ انسانیت کے تاریک سے تاریک دور میں بھی نہیں ملتی۔ اُفٍّ لهم، ثم اُفٍّ۔
تخریج :
صحیح مسلم،کتاب الأشربة (۳؍۱۶۴، برقم ۱۶۲۱)سنن ترمذي، أبواب الأطعمة (۴؍۱۸۴)، وقال: هذا حدیث حسن صحیح غریب، سنن ابن ماجة، کتاب (۲؍۲۰۴۹)۔
سرکہ ایک اچھا سالن ہے، سرکہ قدرے ترش مگر لذید ہو تا ہے، بے حد نافع اور مفید چیز ہے۔ ہاضم بھی اور پیٹ کے کیڑوں کے لیے ہالک بھی ہے۔
حدیث الباب کا تکملہ
یہ فرمان نبوی دراصل ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے تفصیلی واقعہ سیدہ ام ھانی رضی اللہ عنہا کی روایت میں نقل ہو ا ہے، سیدہ ام ھانی رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہن تھیں، ان کا گھر بیت اللہ کے بالکل جوار میں تھا، جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم فاتح کی حیثیت سے مکتہ المکرمہ میں داخل ہوئے، اسی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ ام ھانی کے گھر تشریف فرما ہوئے، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا اور چادر لپیٹ کر آٹھ رکعت نماز ادافرمائی، فتح مکہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا شکر یہ اداکیا، یہ چاشت کا وقت تھا، نماز سے فراعت کے بعد دریافت فرمایا: کچھ کھانے کو ہے ؟ جو اب میں عرض کیا گیا، نان جویں کے چند خشک ٹکڑے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی جان نوش فرمانے کے لیے طلب کیے اور پانی میں بھگوکر نرم کر لیے، پھر ادام یعنی سالن کا پوچھا تو عرض کیا گیا کہ سالن تو نہیں ہے البتہ کچھ سر کہ موجود ہے تب ارشاد فرمایا : نِعْمَ الْاِدَامُ الْخَلُّ پھر نمک منگوایا، سرکہ میں ڈالا، اور اس کے ساتھ نان جویں جان ِ نوش فرمایا۔( سنن ترمذي، أبواب الأطعمة، باب ما جاء في الخل، حدیث:۱۸۴۱ باختصار۔ مستدرك حاکم (۴؍۵۴)۔) اللہ اکبر۔
کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساہو تو سامنے آئے
تاریخِ عالم کے اوراق کھنگال ڈالیے، اس اندازِ فتح کی کوئی مثال نہیں مل سکے گی اور یہ تاریخِ عالَم کا اعجوبہ اور سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا انوکھا باب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ المکرمہ میں فاتحانہ داخل ہو تے ہیں تو نہ سلاطین کی طرح خیمے قائم کیے گئے، نہ فرش وبساط شاہانہ سے زمین آراستہ کی گئی، نہ شادیانے بجائے گئے اور نہ جشن شاہانہ کی تیاریاں کی گئیں، نہ عیش وطرب کے گانے گائے گئے اور نہ طبل و دُہل کے غلغلے اور قرناء وبوق کے ترانے الاپے گئے۔ نہ فوج ظفر موج کے لیے محفلِ کباب و شباب لگائی گئی اور نہ اکل وشرب کے میدان لگائے گئے بلکہ کھانے کے لیے خشک روٹی کے چند ٹکڑے میسر آئے جنہیں سرکہ کے ساتھ نوش فرمالیا اور بقدرِ کفاف گزر اوقات کر لیا، آج فاتحین کے کردار کو دیکھا جائے تو الامان والحفیظ ! حال ہی میں امریکی ویورپی سامرج نے ’’امنِ عامہ ‘‘ کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر جو کردار اداکیا ہے اسے جنگِ خلیج، بوسنیا، روانڈا، عراق اور افغانستان میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ان ممالک میں انہوں نے انسان دوستی، ہمدردی اور امنِ عامہ کے خلاف ایسے سنگیں جرائم کیے ہیں جن کی مثال تاریخِ انسانیت کے تاریک سے تاریک دور میں بھی نہیں ملتی۔ اُفٍّ لهم، ثم اُفٍّ۔