كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ خُبْزِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيُّ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ، فَدَعَتْ لِي بِطَعَامٍ وَقَالَتْ: ((مَا أَشْبَعُ مِنْ طَعَامٍ فَأَشَاءُ أَنْ أَبْكِيَ إِلَّا بَكِيتُ)) . قَالَ: قُلْتُ لِمَ؟ قَالَتْ: ((أَذْكُرُ الْحَالَ الَّتِي فَارَقَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدُّنْيَا، وَاللَّهِ مَا شَبِعَ مِنْ خُبْزٍ وَلَحْمٍ مَرَّتَيْنِ فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روٹی کابیان
’’مسروق سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں ام المؤمین سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے میرے لیے کھانا منگوایا اور فرمایا میں سیر ہو کر کھانا کھاؤں پھر رونے کو روکنا نہ چاہوں تو روپڑتی ہوں میں نے پوچھا : اس کی وجہ کیا ہے ؟ فرمانے لگیں : مجھے اپنے اوپر گزرا ہو اوہ حال اور وقت یاد آجاتا ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے جدا ہو ئے تھے۔ اللہ کی قسم ! آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی ایک دن میں دومرتبہ روٹی اور گوشت سیر ہو کر نہیں کھایا۔ ‘‘
تشریح :
٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاش عام ریفارمروں اور مصلحین جیسا نہ تھا کہ قول وفعل میں تضاد ہو تا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قول وفعل میں عملی زندگی کا مکمل نمونہ تھے۔ جو بات کہی عمل میں بھی لائے، دنیا وی جاہ وجلال سے زھد اور تورع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہے۔ أَللَّهُمَّ أَحْیِنِیْ مِسْکِیْنًا وَأَمِتْنِیْ مِسْکِیْنًا (سنن ترمذي ، أبواب الزهد، باب ما جاء أن فقراء المهاجرین یدخلون الجنة، حدیث:۲۳۵۲۔)’’اے اللہ تعالیٰ! مجھے زندہ رکھ تو مسکینی کی حالت میں، او ر جب موت آئے تو بھی اسی حالت میں ‘‘ واقعی اس کا کامل پرتونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات میں موجود تھا۔
٭ سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ کی تنگدستی و عسرت کا موازنہ مابعد کے دور کی فراخی سے کیا تو اس دور کی عسرت پر ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کے آنسو جاری ہو جاتے تھے اور یہ بدیہی امر ہے مگر یہاں ایک اور وجہ بھی ہے جس پر شاید ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے آنسو جاری ہوگئے ہوں کہ آپ کو افسوس تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجود گی میں جو اجر و ثواب مذکورہ تنگدستی میں اہل خانہ کو حاصل تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد فراخی وخوشحالی کے دور میں وہ اس ثواب سے محروم ہوگئے ہیں، بلا شبہ عسرت کا دور تو گزر گیا مگر اس کے ساتھ وہ فضیلت بھی رخصت ہو گئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حالتِ عسرمیں حاصل تھی، لہٰذا ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کو بے اختیار رونا آجاتا تھا۔
٭ حدیث الباب سے معلوم ہوا کہ ماضی اور حال کا موازنہ کرتے رہنے چاہیے تا کہ ناشکری اور کفران ِ نعمت سے بچا جا سکے۔
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے، سنن ترمذي أبواب الزهد (۴؍۲۳۵۶)وقال: حدیث حسن صحیح۔ اس سند میں مجالد راوی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : قوی (مضبوط )راوی نہیں ہے، عمر کے آخری ایام میں ان کا حافظہ کمزو ر ہو گیا تھا۔ صحیحین میں اس روایت کی اصل موجود ہے لیکن اس میں رونے کا ذکر نہیں ہے۔ جیسا کہ حدیث نمبر ۱۳۹، ۱۴۰، ۱۴۱، میں گزر چکا ہے۔
٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاش عام ریفارمروں اور مصلحین جیسا نہ تھا کہ قول وفعل میں تضاد ہو تا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قول وفعل میں عملی زندگی کا مکمل نمونہ تھے۔ جو بات کہی عمل میں بھی لائے، دنیا وی جاہ وجلال سے زھد اور تورع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہے۔ أَللَّهُمَّ أَحْیِنِیْ مِسْکِیْنًا وَأَمِتْنِیْ مِسْکِیْنًا (سنن ترمذي ، أبواب الزهد، باب ما جاء أن فقراء المهاجرین یدخلون الجنة، حدیث:۲۳۵۲۔)’’اے اللہ تعالیٰ! مجھے زندہ رکھ تو مسکینی کی حالت میں، او ر جب موت آئے تو بھی اسی حالت میں ‘‘ واقعی اس کا کامل پرتونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات میں موجود تھا۔
٭ سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ کی تنگدستی و عسرت کا موازنہ مابعد کے دور کی فراخی سے کیا تو اس دور کی عسرت پر ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کے آنسو جاری ہو جاتے تھے اور یہ بدیہی امر ہے مگر یہاں ایک اور وجہ بھی ہے جس پر شاید ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے آنسو جاری ہوگئے ہوں کہ آپ کو افسوس تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجود گی میں جو اجر و ثواب مذکورہ تنگدستی میں اہل خانہ کو حاصل تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد فراخی وخوشحالی کے دور میں وہ اس ثواب سے محروم ہوگئے ہیں، بلا شبہ عسرت کا دور تو گزر گیا مگر اس کے ساتھ وہ فضیلت بھی رخصت ہو گئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حالتِ عسرمیں حاصل تھی، لہٰذا ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کو بے اختیار رونا آجاتا تھا۔
٭ حدیث الباب سے معلوم ہوا کہ ماضی اور حال کا موازنہ کرتے رہنے چاہیے تا کہ ناشکری اور کفران ِ نعمت سے بچا جا سکے۔