كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ خُبْزِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ يُونُسَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: ((مَا أَكَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى خِوَانٍ وَلَا فِي سُكُرَّجَةٍ، وَلَا خُبِزَ لَهُ مُرَقَّقٌ)) قَالَ: فَقُلْتُ لِقَتَادَةَ: فَعَلَامَ كَانُوا يَأْكُلُونَ؟ قَالَ: ((عَلَى هَذِهِ السُّفَرِ)) قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ: ((يُونُسُ هَذَا الَّذِي رَوَى عَنْ قَتَادَةَ هُوَ يُونُسُ الْإِسْكَافُ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روٹی کابیان
’’سید نا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہو ں نے فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی میز پر کھانا تناول نہیں فرمایا۔ اور نہ ہی چھوٹی طشتریوں میں کھانا کھایا،اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے باریک آٹے کی روٹی (نان )بنایا گیا (راوی حدیث یونس اپنے استاذ قتادۃ کے متعلق فرماتے ہیں )میں نے قتادہ سے عرض کیا وہ کھانا کس چیز پر رکھ کر تناول فرماتے تھے انہوں نے فرمایا: عام دستر خوان پر۔ محمد بن بشار فرماتے ہیں کہ اس روایت کے ایک راوی یونس جو قتادہ سے روایت کرتے ہیں وہ یونس اسکا ف (موچی) ہیں۔‘‘
تشریح :
کھانے پینے میں تکلف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت نہیں تھی حدیث الباب میں مذکور ’’خوان‘‘ (میز ٹیبل، ڈائینگ ٹیبل) اور ’’سکرجّہ‘‘ (چھوٹے چھوٹے برتن یا پلیٹیں )کا اطلاق تکلف والے برتنوں پر ہو تا ہے ان کا استعمال امیر کبیر، خوشحال اور متکبرین لوگوں کی عادات ہیں ان کی دیکھا دیکھی ان اشیاء کا استعمال متوسط طبقہ کے لوگوں میں بھی عام ہو تا جارہا ہے جو ایک طرف مہنگائی کا باعث ہے تو دوسری طرف ان کے استعمال سے وقت کا ضیاع ہو تا ہے کہ ان برتنوں اور ٹیبلوں پر کھانا سجاتے سجاتے کتنا وقت برباد ہو جاتا ہے۔ ایک بندۂ مومن کے اوقات اتنے ارزاں نہیں کہ ان تحسینی امور میں انہیں ضائع کرتا رہے اور تکلف میں اپنے اور خادموں کے نیز اہل خانہ کے اوقات برباد کرے۔
کھانا کھاتے وقت کھانے کے ساتھ جوارشات، چٹنیاں اور رأیتہ وغیرہ کے لیے چھوٹے برتن استعمال میں لائے جاتے ہیں یہ بھی تکلّفات کے ذیل میں آتے ہیں ان سے مقصدیہ ہو تا ہے کہ کھانے کی اشتہاء زیادہ ہو اور کھانا زیادہ کھایاجاسکے اورخواہشاتِ نفسانی کا ذریعہ بنے۔جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’قوت لایموت‘‘ پسند تھا کہ جسدِ اطہر میں اتنی قوت رہے کہ عبادت اور امورِ تبلیغ میں کمی پیدا نہ ہو۔
تخریج :
صحیح بخاري، کتاب الأطعمة (۹؍۵۳۸۵)، سنن ترمذي (۴؍۱۷۸۸) وقال: حدیث حسن غریب وأیضًا (۴؍۲۳۶۳) وقال حدیث حسن صحیح غریب، سنن ابن ماجة ،کتاب الأطعمة (۲؍۳۲۹۲، ۳۲۹۳)، مسند أحمد بن حنبل (۳؍۱۳۰)۔
کھانے پینے میں تکلف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت نہیں تھی حدیث الباب میں مذکور ’’خوان‘‘ (میز ٹیبل، ڈائینگ ٹیبل) اور ’’سکرجّہ‘‘ (چھوٹے چھوٹے برتن یا پلیٹیں )کا اطلاق تکلف والے برتنوں پر ہو تا ہے ان کا استعمال امیر کبیر، خوشحال اور متکبرین لوگوں کی عادات ہیں ان کی دیکھا دیکھی ان اشیاء کا استعمال متوسط طبقہ کے لوگوں میں بھی عام ہو تا جارہا ہے جو ایک طرف مہنگائی کا باعث ہے تو دوسری طرف ان کے استعمال سے وقت کا ضیاع ہو تا ہے کہ ان برتنوں اور ٹیبلوں پر کھانا سجاتے سجاتے کتنا وقت برباد ہو جاتا ہے۔ ایک بندۂ مومن کے اوقات اتنے ارزاں نہیں کہ ان تحسینی امور میں انہیں ضائع کرتا رہے اور تکلف میں اپنے اور خادموں کے نیز اہل خانہ کے اوقات برباد کرے۔
کھانا کھاتے وقت کھانے کے ساتھ جوارشات، چٹنیاں اور رأیتہ وغیرہ کے لیے چھوٹے برتن استعمال میں لائے جاتے ہیں یہ بھی تکلّفات کے ذیل میں آتے ہیں ان سے مقصدیہ ہو تا ہے کہ کھانے کی اشتہاء زیادہ ہو اور کھانا زیادہ کھایاجاسکے اورخواہشاتِ نفسانی کا ذریعہ بنے۔جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’قوت لایموت‘‘ پسند تھا کہ جسدِ اطہر میں اتنی قوت رہے کہ عبادت اور امورِ تبلیغ میں کمی پیدا نہ ہو۔