شمائل ترمذی - حدیث 142

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ خُبْزِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّهُ قِيلَ لَهُ: أَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّقِيَّ؟ - يَعْنِي الْحُوَّارَى - فَقَالَ سَهْلٌ: ((مَا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّقِيَّ حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ تَعَالَى)) ، فَقِيلَ لَهُ: هَلْ كَانَتْ لَكُمْ مَنَاخِلُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: ((مَا كَانَتْ لَنَا مَنَاخِلُ)) . قِيلَ: كَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ بِالشَّعِيرِ؟ قَالَ: ((كُنَّا نَنْفُخُهُ فَيَطِيرُ مِنْهُ مَا طَارَ ثُمَّ نَعْجِنُهُ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 142

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روٹی کابیان ’’سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی چھنے ہوئے آٹے یعنی میدے کی روٹی تناول فرمائی تھی ؟ تو سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی میدے کی روٹی دیکھی تک نہیں حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے جاملے۔ پھر سیّدنا سہل رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں آپ لوگوں کے پاس چھاننیاں نہیں ہو تی تھیں ؟ جواب دیا کہ ہمارے پاس چھاننیاں نہیں ہو تی تھی۔ پھر سوال کیا گیا کہ تم جو کے آٹے کا کیا کرتے تھے ؟ جواب دیا کہ ہم اس میں پھونک مارتے تھے پس اس سے اڑنے والی چیز ( چھلکا ) اڑجاتا تھا پھر ہم اس آٹے کو گوندھ لیتے تھے۔‘‘
تشریح : اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کے معاملے میں تکلیف اور اہتمام نہیں فرماتے تھے میرک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی چھلنی دیکھی بھی نہیں، جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تا آنکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پرور دگار سے جاملے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے قبل ازنبوت کے امور سے احتراز کیا ہے کیونکہ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسفر ملک شام کی طرف کیے، اور بصری بھی گئے اور بحیرا راہب کے مہمان بھی بنے اور شام کا علاقہ بھی اس وقت روم میں شامل تھا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدہ وغیرہ دیکھا ہو گا لیکن نبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ، طائف، اور مدینہ میں تنگ حالات میں ہی گزر بسر کی، نیز سیدنا سہل بن سعد نے رضی اللہ عنہ اپنی رؤیت اور علم کی نفی کی، نہ کہ مطلق وقوع کی۔( فتح الباري (۶؍۵۸۹)۔)
تخریج : صحیح بخاري، کتاب الأطعمة (۹؍۵۴۱۳) وفی لفظه: وَمَا بَقِيَ ثَرَیْنَاهُ فَآَ کَلْنَاهُ، سنن ترمذي ، أبواب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم (۴؍۲۳۶۴)وقال هذا حدیث حسن صحیح، سنن ابن ماجة کتاب الأطعمة (۲؍۳۳۳۵) مسند أحمد بن حنبل (۵؍۳۳۲)، طبقات ابن سعد (۱؍۴۰۷)۔ اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کے معاملے میں تکلیف اور اہتمام نہیں فرماتے تھے میرک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی چھلنی دیکھی بھی نہیں، جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تا آنکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پرور دگار سے جاملے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے قبل ازنبوت کے امور سے احتراز کیا ہے کیونکہ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسفر ملک شام کی طرف کیے، اور بصری بھی گئے اور بحیرا راہب کے مہمان بھی بنے اور شام کا علاقہ بھی اس وقت روم میں شامل تھا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدہ وغیرہ دیکھا ہو گا لیکن نبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ، طائف، اور مدینہ میں تنگ حالات میں ہی گزر بسر کی، نیز سیدنا سہل بن سعد نے رضی اللہ عنہ اپنی رؤیت اور علم کی نفی کی، نہ کہ مطلق وقوع کی۔( فتح الباري (۶؍۵۸۹)۔)