كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ خُبْزِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ، يُحَدِّثُ عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: ((مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ الشَّعِيرِ يَوْمَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ حَتَّى قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روٹی کابیان
’’ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ نے مسلسل دودن بھی جو کی روٹی پیٹ بھر کر نہ کھائی۔‘‘
تشریح :
اس روایت کے صحیح بخاری میں الفاظ یہ ہیں کہ ’’مَا شَبِعَ اٰلُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِیْنَةَ مِنْ طَعَامِ بُرٍّ ثَلَاثَ لِیَالٍ تِبَاعًا حَتَّی قُبِضَ‘‘ (صحیح بخاري، کتاب الأطعمة ، باب ما کان النبي صلى الله علیه وسلم وأصحابه یأکلون، حدیث:۵۴۱۶۔)یعنی مدینہ آنے کے بعد تا وقت وفات گندم کی روٹی سے متواتر تین دن رات بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے سیر نہیں ہوئے۔
صحیح مسلم کے الفاظ ہیں کہ ’’مَا شَبِعَ اٰلُ مُحَمدٍَّ صلى الله عليه وسلم یَوْمَیْنِ مِنْ خُبْزٍ إِلاَّ اِحْدٰ هُمَا تَمْرٌ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الزهد، باب الدنیا سجن للمؤمن حدیث:۲۹۷۱۔)یعنی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دو دن بھی شکم سیر ہو کر روٹی میسر نہیں آئی مگر ان میں ایک دن کھجور ہوتی، صحیح بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں : مَا أَ کَلَ اٰلُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم أَکْلَتَیْنِ فِيْ یَوْمٍ إِلَّا وَ إِحْدٰهُمَا تَمْرٌ‘‘ (صحیح بخاري، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبي صلى الله علیه وسلم، وأصحابه ، حدیث:۶۴۵۵۔)یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ نے ایک دن میں دو دفعہ کوئی پکایا ہو انہیں کھایا، ہاں ایک دفعہ کھجور ہوتی۔جبکہ صحیح بخاری ومسلم کی ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل وعیال کے لیے ایک سال کا نفقہ وخرچہ ذخیرہ بنا لیتے تھے،( صحیح بخاري، کتاب النفقات، باب حبس الرجل قوت سنة علی أهله ، حدیث:۵۳۵۷،۵۳۵۸۔ صحیح مسلم، کتاب الجهاد، باب حکم الفي، حدیث:۱۷۵۷ مطولًا۔) تو اس کا جواب امام نووی رحمہ اللہ نے یہ دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ عمل اپنی زندگی کے آخری سالوں میں کرتے تھے لیکن جب لوگوں کی ضرورتیں پیش آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کچھ ان پر خرچ کردیتے اور جو ذخیرہ بنایا ہو تا وہ بہت جلد خرچ ہو جاتا۔ اس سے بھی صحیح جواب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا سالانہ خرچہ جو جمع فرماتے وہ سیر ہو جانے کے برابر نہیں ہو تا تھا بلکہ بہت کم ہوتا، یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے اتنا ذخیرہ نہ بناتے ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ بھی سیر ہوجائیں۔
صحیح بخاری ومسلم میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ’’جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو میرے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی جسے کوئی جاندار کھاتا ہو، ہاں تھوڑے سے جو تھے جو میری ایک مشک میں تھے تو میں اس سے کافی عرصہ تک کھاتی رہی، پھر میں نے اس کو ماپ لیا تو وہ ختم ہوگئے۔‘‘ (صحیح بخاري، کتاب فرض الخمس۔ باب نفقة نساء النبي صلى الله علیه وسلم، حدیث:۳۰۹۷۔ صحیح مسلم، کتاب الزهد، باب الدنیا سجن للمؤمن، حدیث:۲۹۷۳۔)چونکہ سخاوت وسماحت، فقیروں، عاجزوں، مسکینوں اورغریبوں کی پرورش کرنا، ان کو کھانا کھلانا اور ان سے ایثار و مواساۃ کا سلوک کرنا سید کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانہ کا خاص وصف تھا لہٰذا جو کچھ جمع ہوا ہوتا، اسی سے ان ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کردی جاتیں، اور خود ایک دن روٹی اور سالن نوش جاں کرتے اور دوسرے دن کھجور پر گزارن ہوتی۔
تخریج :
صحیح مسلم، کتاب الزهد (۴؍۲۲ برقم ۲۲۸۲)، سنن ترمذي ، أبواب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم (۴؍۲۳۵۷) وقال أبوعیسیٰ: هذا حدیث حسن صحیح، وسنن ابن ماجة، کتاب الأطعمة (۲؍۳۳۴۶) من طریق عبدالرحمان بن یزید عن الأسود عن عائشة....به، وصحیح بخاري، کتاب الأطعمة (۹؍۵۴۱۶)وفي الرقاق (۱۰؍۶۴۵۴)، من طریق إبراهیم عن الأسود عن عائشة رضی الله عنها بلفظ مِنْ طَعَامِ الْبّرِّ ثَلَاثَ لِیَالٍ تِبَاعًا حَتَّی قُبِضَ وکذالك عند أحمد في مسنده (۶؍۱۲۸، ۱۵۶، ۲۵۵، ۲۷۷) بألفاظ متقاربة۔
اس روایت کے صحیح بخاری میں الفاظ یہ ہیں کہ ’’مَا شَبِعَ اٰلُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِیْنَةَ مِنْ طَعَامِ بُرٍّ ثَلَاثَ لِیَالٍ تِبَاعًا حَتَّی قُبِضَ‘‘ (صحیح بخاري، کتاب الأطعمة ، باب ما کان النبي صلى الله علیه وسلم وأصحابه یأکلون، حدیث:۵۴۱۶۔)یعنی مدینہ آنے کے بعد تا وقت وفات گندم کی روٹی سے متواتر تین دن رات بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے سیر نہیں ہوئے۔
صحیح مسلم کے الفاظ ہیں کہ ’’مَا شَبِعَ اٰلُ مُحَمدٍَّ صلى الله عليه وسلم یَوْمَیْنِ مِنْ خُبْزٍ إِلاَّ اِحْدٰ هُمَا تَمْرٌ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الزهد، باب الدنیا سجن للمؤمن حدیث:۲۹۷۱۔)یعنی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دو دن بھی شکم سیر ہو کر روٹی میسر نہیں آئی مگر ان میں ایک دن کھجور ہوتی، صحیح بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں : مَا أَ کَلَ اٰلُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم أَکْلَتَیْنِ فِيْ یَوْمٍ إِلَّا وَ إِحْدٰهُمَا تَمْرٌ‘‘ (صحیح بخاري، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبي صلى الله علیه وسلم، وأصحابه ، حدیث:۶۴۵۵۔)یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ نے ایک دن میں دو دفعہ کوئی پکایا ہو انہیں کھایا، ہاں ایک دفعہ کھجور ہوتی۔جبکہ صحیح بخاری ومسلم کی ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل وعیال کے لیے ایک سال کا نفقہ وخرچہ ذخیرہ بنا لیتے تھے،( صحیح بخاري، کتاب النفقات، باب حبس الرجل قوت سنة علی أهله ، حدیث:۵۳۵۷،۵۳۵۸۔ صحیح مسلم، کتاب الجهاد، باب حکم الفي، حدیث:۱۷۵۷ مطولًا۔) تو اس کا جواب امام نووی رحمہ اللہ نے یہ دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ عمل اپنی زندگی کے آخری سالوں میں کرتے تھے لیکن جب لوگوں کی ضرورتیں پیش آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کچھ ان پر خرچ کردیتے اور جو ذخیرہ بنایا ہو تا وہ بہت جلد خرچ ہو جاتا۔ اس سے بھی صحیح جواب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا سالانہ خرچہ جو جمع فرماتے وہ سیر ہو جانے کے برابر نہیں ہو تا تھا بلکہ بہت کم ہوتا، یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے اتنا ذخیرہ نہ بناتے ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ بھی سیر ہوجائیں۔
صحیح بخاری ومسلم میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ’’جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو میرے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی جسے کوئی جاندار کھاتا ہو، ہاں تھوڑے سے جو تھے جو میری ایک مشک میں تھے تو میں اس سے کافی عرصہ تک کھاتی رہی، پھر میں نے اس کو ماپ لیا تو وہ ختم ہوگئے۔‘‘ (صحیح بخاري، کتاب فرض الخمس۔ باب نفقة نساء النبي صلى الله علیه وسلم، حدیث:۳۰۹۷۔ صحیح مسلم، کتاب الزهد، باب الدنیا سجن للمؤمن، حدیث:۲۹۷۳۔)چونکہ سخاوت وسماحت، فقیروں، عاجزوں، مسکینوں اورغریبوں کی پرورش کرنا، ان کو کھانا کھلانا اور ان سے ایثار و مواساۃ کا سلوک کرنا سید کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانہ کا خاص وصف تھا لہٰذا جو کچھ جمع ہوا ہوتا، اسی سے ان ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کردی جاتیں، اور خود ایک دن روٹی اور سالن نوش جاں کرتے اور دوسرے دن کھجور پر گزارن ہوتی۔