كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ أَكْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: ((كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَكَلَ طَعَامًا لَعِقَ أَصَابِعَهُ الثَّلَاثَ))
کتاب
رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانا کھانے کا بیان
’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانا تناول فرمالیتے تواپنی تینوں انگلیوں کو چاٹتے تھے۔‘‘
تشریح :
٭ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (فتح الباري (۶؍۶۱۳)۔)فرماتے ہیں : کھانے کے بعد پونچھنے اور دھونے سے پہلے انگلیوں کوچاٹنا مسنون ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ پونچھنے سے پہلے اپنے ہاتھ کو چاٹ لے، تا کہ برکت کی محافظت ہو(صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب استحباب لعق الأصابع، حدیث:۱۳۴؍۲۰۳۳۔) اور انگلیوں کی صفائی ہو جائے، کھانے کے دوران نہ چاٹے کیونکہ اس طرح کرنا کھانے کو ناپسند بنا دے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ ’’خود چاٹ لے یا کسی کو چٹا دے‘‘، (صحیح بخاري، کتاب الأطعمة ، باب لعق الأصابع ومصها، حدیث:۵۴۵۶۔ صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب استحباب لعق الأصابع، حدیث:۲۰۳۱۔)لہٰذا جو برکت سمجھتا ہو وہ ایسے شخص کو چٹا دے جو اسے ناپسند نہ جانتا ہو۔ مثلا ً اپنے بیٹے،خادم یا بیوی وغیرہ کو چٹا دے، جو اس سے محبت کرتے ہوں اورلذت محسوس کرتے ہوں۔
٭ اس حدیث سے اشارہ ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین انگلیوں سے کھانا تناول فرماتے تھے۔ صراحتاً بھی احادیث میں وارد ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین انگلیوں سے کھانا تناول فرماتے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب استحباب لعق الأصابع، حدیث:۲۰۳۲۔)کیونکہ متکبر لوگ ایک انگلی سے کھاتے ہیں اور حریص لوگ پانچ انگلیوں سے کھاتے ہیں بلکہ ہتھیلی کی مدد سے بھی کھانا اندر دھکیلتے ہیں۔ لہٰذا راہ ِ اعتدال یہی ہے کہ تین انگلیوں سے کھانا کھایا جائے، اور کھانے سے فارغ ہو کر ان کو چاٹ لیا جائے۔انگلیوں کو چاٹنے کی علت گذشتہ حدیث میں بیان کر دی گئی ہے کہ ’’اس کو پتہ نہیں ہو تا کہ کھانے کے کس حصہ میں برکت ہے۔‘‘ جو کھانا کھالیااس میں برکت ہے؟ یا جو انگلیوں پر ہے اس میں برکت ہے؟ یا اس میں جو برتن میں رہ گیا؟ یا اس لقمہ میں جو نیچے گر گیا؟ اس لیے حتی الامکان ہر جگہ سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
٭ صحیح مسلم میں ہے کہ ’’شیطان تمہارے ہر کام میں آنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ تمہارے کھانے میں بھی، تو جب تم میں سے کسی سے کوئی لقمہ گرجائے تووہ اسے جھاڑ پونچھ کر کھالے، اوراس کو شیطان کے لیے نہ چھوڑ دے۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب استحباب لعق الأصابع، حدیث:۱۳۵؍۲۰۳۳۔)
امام نووی(شرح مسلم للنووي (۷؍۷۶)۔) رحمہ اللہ فرماتے ہیں : برکت سے مراد خوراک وغذا اور انجام پر تکلیف سے سلامتی ہے اور اطاعت الٰہی پر قدرت ہے۔ امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’کچھ لوگ جن کے دماغ مال ودولت کی فراوانی نے بگاڑ دئیے ہیں وہ کھانے کے بعد انگلیوں کوچاٹنے کو برا سمجھتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو کھانا انگلیوں کے ساتھ لگ گیا ہے وہ بھی اسی کھانے کا حصہ ہے جسے ابھی ابھی انہوں نے کھایا ہے، تو جب وہ خراب اور فاسد نہیں ہے تو یہ باقی ماندہ حصہ جو انگلیوں کو لگا ہوا ہے وہ کیسے خراب ہو گیا ہے ؟اور اس طرح انگلیوں کوچاٹنا کوئی معیوب اور سوء ادب بھی نہیں ہے کہ انسان کلی بھی کرتا ہے او رپھر دانتوں پر انگلیاں بھی رگڑتا ہے۔ یہ بات تب ہے جب کوئی صرف ذاتی طور پر اس عمل کو اچھانہ سمجھتا ہو، اگر اس نسبت سے برا سمجھتے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے تو یہ شخص پکا کافر ہو جاتا ہے۔‘‘
تخریج :
صحیح مسلم،کتاب الأشربة (۳؍۱۳۶، برقم ۱۶۰۷)، سنن ترمذي ، أبواب الأطعمة (۴؍۱۸۰۳)، سنن أبي داود،کتاب الأطعمة (۳؍۳۸۴۵)، مسند أحمد بن حنبل (۳؍۲۹۰)، أخلاق النبي صلى الله عليه وسلم لأبي الشیخ (ص : ۲۰۸)بدون الثلاث۔
٭ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (فتح الباري (۶؍۶۱۳)۔)فرماتے ہیں : کھانے کے بعد پونچھنے اور دھونے سے پہلے انگلیوں کوچاٹنا مسنون ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ پونچھنے سے پہلے اپنے ہاتھ کو چاٹ لے، تا کہ برکت کی محافظت ہو(صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب استحباب لعق الأصابع، حدیث:۱۳۴؍۲۰۳۳۔) اور انگلیوں کی صفائی ہو جائے، کھانے کے دوران نہ چاٹے کیونکہ اس طرح کرنا کھانے کو ناپسند بنا دے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ ’’خود چاٹ لے یا کسی کو چٹا دے‘‘، (صحیح بخاري، کتاب الأطعمة ، باب لعق الأصابع ومصها، حدیث:۵۴۵۶۔ صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب استحباب لعق الأصابع، حدیث:۲۰۳۱۔)لہٰذا جو برکت سمجھتا ہو وہ ایسے شخص کو چٹا دے جو اسے ناپسند نہ جانتا ہو۔ مثلا ً اپنے بیٹے،خادم یا بیوی وغیرہ کو چٹا دے، جو اس سے محبت کرتے ہوں اورلذت محسوس کرتے ہوں۔
٭ اس حدیث سے اشارہ ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین انگلیوں سے کھانا تناول فرماتے تھے۔ صراحتاً بھی احادیث میں وارد ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین انگلیوں سے کھانا تناول فرماتے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب استحباب لعق الأصابع، حدیث:۲۰۳۲۔)کیونکہ متکبر لوگ ایک انگلی سے کھاتے ہیں اور حریص لوگ پانچ انگلیوں سے کھاتے ہیں بلکہ ہتھیلی کی مدد سے بھی کھانا اندر دھکیلتے ہیں۔ لہٰذا راہ ِ اعتدال یہی ہے کہ تین انگلیوں سے کھانا کھایا جائے، اور کھانے سے فارغ ہو کر ان کو چاٹ لیا جائے۔انگلیوں کو چاٹنے کی علت گذشتہ حدیث میں بیان کر دی گئی ہے کہ ’’اس کو پتہ نہیں ہو تا کہ کھانے کے کس حصہ میں برکت ہے۔‘‘ جو کھانا کھالیااس میں برکت ہے؟ یا جو انگلیوں پر ہے اس میں برکت ہے؟ یا اس میں جو برتن میں رہ گیا؟ یا اس لقمہ میں جو نیچے گر گیا؟ اس لیے حتی الامکان ہر جگہ سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
٭ صحیح مسلم میں ہے کہ ’’شیطان تمہارے ہر کام میں آنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ تمہارے کھانے میں بھی، تو جب تم میں سے کسی سے کوئی لقمہ گرجائے تووہ اسے جھاڑ پونچھ کر کھالے، اوراس کو شیطان کے لیے نہ چھوڑ دے۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب استحباب لعق الأصابع، حدیث:۱۳۵؍۲۰۳۳۔)
امام نووی(شرح مسلم للنووي (۷؍۷۶)۔) رحمہ اللہ فرماتے ہیں : برکت سے مراد خوراک وغذا اور انجام پر تکلیف سے سلامتی ہے اور اطاعت الٰہی پر قدرت ہے۔ امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’کچھ لوگ جن کے دماغ مال ودولت کی فراوانی نے بگاڑ دئیے ہیں وہ کھانے کے بعد انگلیوں کوچاٹنے کو برا سمجھتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو کھانا انگلیوں کے ساتھ لگ گیا ہے وہ بھی اسی کھانے کا حصہ ہے جسے ابھی ابھی انہوں نے کھایا ہے، تو جب وہ خراب اور فاسد نہیں ہے تو یہ باقی ماندہ حصہ جو انگلیوں کو لگا ہوا ہے وہ کیسے خراب ہو گیا ہے ؟اور اس طرح انگلیوں کوچاٹنا کوئی معیوب اور سوء ادب بھی نہیں ہے کہ انسان کلی بھی کرتا ہے او رپھر دانتوں پر انگلیاں بھی رگڑتا ہے۔ یہ بات تب ہے جب کوئی صرف ذاتی طور پر اس عمل کو اچھانہ سمجھتا ہو، اگر اس نسبت سے برا سمجھتے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے تو یہ شخص پکا کافر ہو جاتا ہے۔‘‘