كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي اتِّكَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ،حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ مُسْلِمٍ الْخَفَّافُ الْحَلَبِيُّ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ وَعَلَى رَأْسِهِ عِصَابَةٌ صَفْرَاءُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: ((يَا فَضْلُ)) قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: ((اشْدُدْ بِهَذِهِ الْعِصَابَةِ رَأْسِي)) قَالَ: فَفَعَلْتُ، ثُمَّ قَعَدَ فَوَضَعَ كَفَّهُ عَلَى مَنْكِبِي، ثُمَّ قَامَ فَدَخَلَ فِي الْمَسْجِدِ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کے سہارے ٹیک لگانا
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مرض میں گیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر زرد رنگ کی پگڑی تھی میں نے سلام عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے فضل ! میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! حاضر ہوں۔ ارشادفرمایا : اس پگڑی کو میرے سر پر اچھی طرح باندھ دو۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور اپنے دونوں ہاتھ میرے کندھوں پر رکھ کر کھڑے ہوگئے اور مسجد میں تشریف لے گئے۔ اور حدیث میں مفصل قصّہ ہے۔
تشریح :
حدیث الباب کا تکمیلی مضمون :
وَفِی الْحَدِیْثِ قِصَّةٌ : یہاں پر ایک لمبا قصہ ہے جو امام ترمذی رحمہ اللہ نے شمائل کے اس باب میں ذکر نہیں کیا کیونکہ یہ باب صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سہارا لے کر چلنے سے متعلق ہے اور یہ تفصیلی واقعہ اس سے متعلق نہیں ہے۔ اس کا کچھ حصہ باب الوفاۃ میں آرہا ہے۔ مجمع الزوائد میں امام ھیثمی رحمہ اللہ نے یہ واقعہ خوب تفصیلات کے ساتھ بیان فرمایا ہے قارئین کی طبع خاطر کے لیے ہم اسے یہاں ذکر کر رہے ہیں۔
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ میں نے دیکھا کہ سیدکائنات نے صلی اللہ علیہ وسلم سر مبارک پر پگڑی کو پٹی کی طرح باندھ رکھا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخار ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرا ہاتھ پکڑلو۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ مبارک اپنے ہاتھ میں لیا، سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر جلوہ افروز ہو کر فرمایا : لوگوں کو آواز دے کر جمع کر لو، میں لوگو ں کو بلالایا : شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد وثنا ء کے بعد یہ مضمون ارشاد فرمایا :
’’لوگوں میرا وقتِ رحلت قریب ہے اس لیے جس کی کمر پرمیں نے مارا ‘ میری کمر موجود ہے وہ بدلہ چکا لے۔ جس کی آبروئے نفس پر میری طرف سے حملہ ہوا ہو وہ بھی بدلہ لے لے۔ جس کا کوئی مالی مطالبہ ہو وہ بھی تقاضہ کر لے۔ کوئی یہ بات دل میں نہ لائے کہ بدلہ لینے سے میرے دل میں اس کے خلاف بغض پیدا ہو جائے گا، کیونکہ بغض رکھنا نہ میری طبیعت ہے نہ میرے لیے موزوں ہے، بلکہ مجھے تو وہ شخص محبوب ہے جو مجھ سے اس دنیا میں اپنا حق وصول کرلے یا معاف کر دے کہ میں یہاں سے اللہ کے حضور بشاشت ِ نفس کے ساتھ جاؤں۔ میں اپنے اس اعلان کو ایک دفعہ کہنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہتا، پھر بھی اس کا اعادہ کروں گا، چنانچہ ا س کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترآئے۔ نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد پھر منبر پر یہی اعلان دہرایا، مزید فرمایا : جس کے ذمے کوئی حق ہو، وہ بھی اداکر دے اور دنیا کی رسوائی کا خیال نہ کرے کہ دنیا کی رسوائی آخرت کی رسوائی سے بہت کم ترہے، ایک صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کیا : میرے تین درھم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمّے ہیں : فرمایا :میں کسی مطالبہ کرنے والے کی نہ تکذیب کرتا ہوں اور نہ اس کی قسم دیتا ہوں، لیکن پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیسے میرے ذ میّ ہیں ؟ اس نے عرض کیا : ایک سائل ایک دن آپ کے پاس آیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ اسے تین درھم دے دو۔ سیدکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو فرمایا: اس کے تین درھم اداکردو : اس کے بعد ایک اور صاحب اٹھے، انہوں نے عرض کیا کہ میرے ذمہّ تین درھم بیت المال کے ہیں۔ میں نے خیانت سے لیے تھے۔ فرمایا : خیانت کیوں کی ؟ عرض کیا محتاج تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا : وصول کرلو۔ پھر فرمایا : جس کسی کو اپنی کسی حالت کا اندیشہ ہو وہ بھی دعا کر والے (کہ اب وقتِ رخصت قریب ہے )ایک صاحب اٹھے اور عرض کیا : میں جھوٹا ہوں، منافق ہوں اور بہت زیادہ سونے کا مریض ہوں۔ دعا فرمائی: اے باری تعالیٰ ! اسے سچائی عطا فرما، ایمان کا مل سے نوازدے، اور زیادتی نیند کے مرض سے صحت بخش دے۔ ایک اور صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جھوٹا ہوں، منافق ہوں، کوئی گناہ ایسا نہیں جو نہ کیا ہو، حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو تنبیہ فرمائی کہ اپنے گناہوں کو پھیلاتے ہو؟ ارشاد فرمایا : عمر! چپ رہو۔ دنیا کی رسوائی آخرت سے بڑی ہلکی ہے۔ پھر ارشاد فرمایا : اللہ ! اس کوسچائی اور کامل ایمان عطا فرما، اس کے حالات کو بہتر کر دے۔ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجمع عام کو کوئی بات کہی جس پر ارشاد فرمایا : عمر ( رضی اللہ عنہ )میرے ساتھ ہیں اور میں عمر کے ساتھ ہوں، میرے بعد حق عمر کے ساتھ ہے جدھر بھی و ہ جائیں۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک صاحب اور کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بزدل ہوں، زیادہ سونے کا مریض ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بھی دعا فرمائی۔ سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس کے بعد ہم دیکھتے تھے کہ ان کے برابر کوئی بھی بہادر اور دلیر نہ تھا۔ اس کے بعد سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا میں تشریف لے گئے اورا سی طرح عورتوں میں بھی یہ اعلان فرمایا۔ ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : میں زبان سے عاجز ہوں، ان کے لیے دعا کی گئی۔‘ ‘(صحیح مسلم، کتاب التوبة، باب فضل دوام الذکر والفکر...، حدیث:۲۷۵۰۔)
ایک اہم تنبیہ...: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اپنے آپ کو جھوٹا اور منافق کہنا اس وجہ سے تھا کہ خشیت الٰہی سے ان اصحاب کے دل لبر یز تھے۔ اسی غلبہ خشیتِ الٰہی سے ان کو اپنے اوپر نفاق کا شبہ ہو تا تھا جیسا کہ صحیح مسلم(معجم کبیر طبراني (۱۸؍۲۸۰،۲۸۱)۔ مسند أبي یعلی (۶۸۲۴)۔ مجمع الزوائد (۹؍۲۵۔۲۶) وإسناده ضعیف۔) میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ دونوں آپس میں اپنے آپ پر نفاق کا شبہ کر رہے تھے حالانکہ ان ہر دوکو دنیا میں ہی جنت کی ضمانت مل چکی تھی۔
یَابُ مَا جَاءَ فِيْ اِتِّکاَءِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مکمل ہوا۔
والحمد للّٰه علی ذالك
تخریج :
یہ روایت ضعیف ہے المعجم الکبیر للطبراني (۱۸،۲۸۱)، المجعم الأوسط للطبراني (۴؍۸۲) امام ہیثمی رحمہ اللہ ، مجمع الزوائد (۹؍۲۵،۲۶)میں فرماتے ہیں اس روایت کو امام طبرانی رحمہ اللہ نے اوسط اور کبیر میں اور ابویعلی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور ابویعلی رحمہ اللہ کی سند میں عطا ء بن مسلم راوی ہیں جنہیں ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقات میں ذکر کیا ہے جبکہ ایک جماعت نے اسے ضعیف کہا ہے ابویعلی رحمہ اللہ کے دوسرے تمام راوی ثقات ہیں، اور طبرانی کی اسناد میں مجھول راوی ہیں۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تاریخ (۵؍۲۳۱) میں رقمطر از ہیں کہ: اس روایت کی سند اور متن میں شدید غرابت ہے۔
حدیث الباب کا تکمیلی مضمون :
وَفِی الْحَدِیْثِ قِصَّةٌ : یہاں پر ایک لمبا قصہ ہے جو امام ترمذی رحمہ اللہ نے شمائل کے اس باب میں ذکر نہیں کیا کیونکہ یہ باب صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سہارا لے کر چلنے سے متعلق ہے اور یہ تفصیلی واقعہ اس سے متعلق نہیں ہے۔ اس کا کچھ حصہ باب الوفاۃ میں آرہا ہے۔ مجمع الزوائد میں امام ھیثمی رحمہ اللہ نے یہ واقعہ خوب تفصیلات کے ساتھ بیان فرمایا ہے قارئین کی طبع خاطر کے لیے ہم اسے یہاں ذکر کر رہے ہیں۔
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ میں نے دیکھا کہ سیدکائنات نے صلی اللہ علیہ وسلم سر مبارک پر پگڑی کو پٹی کی طرح باندھ رکھا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخار ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرا ہاتھ پکڑلو۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ مبارک اپنے ہاتھ میں لیا، سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر جلوہ افروز ہو کر فرمایا : لوگوں کو آواز دے کر جمع کر لو، میں لوگو ں کو بلالایا : شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد وثنا ء کے بعد یہ مضمون ارشاد فرمایا :
’’لوگوں میرا وقتِ رحلت قریب ہے اس لیے جس کی کمر پرمیں نے مارا ‘ میری کمر موجود ہے وہ بدلہ چکا لے۔ جس کی آبروئے نفس پر میری طرف سے حملہ ہوا ہو وہ بھی بدلہ لے لے۔ جس کا کوئی مالی مطالبہ ہو وہ بھی تقاضہ کر لے۔ کوئی یہ بات دل میں نہ لائے کہ بدلہ لینے سے میرے دل میں اس کے خلاف بغض پیدا ہو جائے گا، کیونکہ بغض رکھنا نہ میری طبیعت ہے نہ میرے لیے موزوں ہے، بلکہ مجھے تو وہ شخص محبوب ہے جو مجھ سے اس دنیا میں اپنا حق وصول کرلے یا معاف کر دے کہ میں یہاں سے اللہ کے حضور بشاشت ِ نفس کے ساتھ جاؤں۔ میں اپنے اس اعلان کو ایک دفعہ کہنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہتا، پھر بھی اس کا اعادہ کروں گا، چنانچہ ا س کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترآئے۔ نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد پھر منبر پر یہی اعلان دہرایا، مزید فرمایا : جس کے ذمے کوئی حق ہو، وہ بھی اداکر دے اور دنیا کی رسوائی کا خیال نہ کرے کہ دنیا کی رسوائی آخرت کی رسوائی سے بہت کم ترہے، ایک صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کیا : میرے تین درھم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمّے ہیں : فرمایا :میں کسی مطالبہ کرنے والے کی نہ تکذیب کرتا ہوں اور نہ اس کی قسم دیتا ہوں، لیکن پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیسے میرے ذ میّ ہیں ؟ اس نے عرض کیا : ایک سائل ایک دن آپ کے پاس آیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ اسے تین درھم دے دو۔ سیدکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو فرمایا: اس کے تین درھم اداکردو : اس کے بعد ایک اور صاحب اٹھے، انہوں نے عرض کیا کہ میرے ذمہّ تین درھم بیت المال کے ہیں۔ میں نے خیانت سے لیے تھے۔ فرمایا : خیانت کیوں کی ؟ عرض کیا محتاج تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا : وصول کرلو۔ پھر فرمایا : جس کسی کو اپنی کسی حالت کا اندیشہ ہو وہ بھی دعا کر والے (کہ اب وقتِ رخصت قریب ہے )ایک صاحب اٹھے اور عرض کیا : میں جھوٹا ہوں، منافق ہوں اور بہت زیادہ سونے کا مریض ہوں۔ دعا فرمائی: اے باری تعالیٰ ! اسے سچائی عطا فرما، ایمان کا مل سے نوازدے، اور زیادتی نیند کے مرض سے صحت بخش دے۔ ایک اور صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جھوٹا ہوں، منافق ہوں، کوئی گناہ ایسا نہیں جو نہ کیا ہو، حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو تنبیہ فرمائی کہ اپنے گناہوں کو پھیلاتے ہو؟ ارشاد فرمایا : عمر! چپ رہو۔ دنیا کی رسوائی آخرت سے بڑی ہلکی ہے۔ پھر ارشاد فرمایا : اللہ ! اس کوسچائی اور کامل ایمان عطا فرما، اس کے حالات کو بہتر کر دے۔ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجمع عام کو کوئی بات کہی جس پر ارشاد فرمایا : عمر ( رضی اللہ عنہ )میرے ساتھ ہیں اور میں عمر کے ساتھ ہوں، میرے بعد حق عمر کے ساتھ ہے جدھر بھی و ہ جائیں۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک صاحب اور کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بزدل ہوں، زیادہ سونے کا مریض ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بھی دعا فرمائی۔ سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس کے بعد ہم دیکھتے تھے کہ ان کے برابر کوئی بھی بہادر اور دلیر نہ تھا۔ اس کے بعد سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا میں تشریف لے گئے اورا سی طرح عورتوں میں بھی یہ اعلان فرمایا۔ ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : میں زبان سے عاجز ہوں، ان کے لیے دعا کی گئی۔‘ ‘(صحیح مسلم، کتاب التوبة، باب فضل دوام الذکر والفکر...، حدیث:۲۷۵۰۔)
ایک اہم تنبیہ...: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اپنے آپ کو جھوٹا اور منافق کہنا اس وجہ سے تھا کہ خشیت الٰہی سے ان اصحاب کے دل لبر یز تھے۔ اسی غلبہ خشیتِ الٰہی سے ان کو اپنے اوپر نفاق کا شبہ ہو تا تھا جیسا کہ صحیح مسلم(معجم کبیر طبراني (۱۸؍۲۸۰،۲۸۱)۔ مسند أبي یعلی (۶۸۲۴)۔ مجمع الزوائد (۹؍۲۵۔۲۶) وإسناده ضعیف۔) میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ دونوں آپس میں اپنے آپ پر نفاق کا شبہ کر رہے تھے حالانکہ ان ہر دوکو دنیا میں ہی جنت کی ضمانت مل چکی تھی۔
یَابُ مَا جَاءَ فِيْ اِتِّکاَءِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مکمل ہوا۔
والحمد للّٰه علی ذالك