كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي اتِّكَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ ،حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ: ((أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ شَاكِيًا فَخَرَجَ يَتَوَكَّأُ عَلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ قِطْرِيٌّ قَدْ تَوَشَّحَ بِهِ فَصَلَّى بِهِمْ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کے سہارے ٹیک لگانا
’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار تھے تو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ پر ٹیک لگائے باہر تشریف فرما ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یمنی چادر اپنے کندھوں پر اوڑھے ہوئے تھے اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو نماز پڑھائی۔‘‘
تشریح :
٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے والد سیّدنا زید رضی اللہ عنہ کو اپنا متبنی بنایا تھا ان باپ اور بیٹے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حدمحبت تھی۔ ضعف اور کمزوری کی وجہ سے اکیلے چلنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قاصر تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہما بن زید کا سہارا لیا ہوا تھا۔ صحیح بخاری(سیّدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہماکا ذکر صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب استخلاف الإمام، حدیث:۹۱؍۴۱۸ میں ہے اور سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کا ذکر سنن الدارقطنی میں ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: فتح الباري (۲؍۲۶۲ تحت رقم الحدیث:۶۶۵)۔)کی روایت میں تین آدمیوں پر سہارا لینے کا ذکر ہے۔ دوسرے سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ اور تیسرے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے۔
٭ اس حدیث سے معلوم ہو کہ آدمی عذر کی وجہ سے کسی دوسرے آدمی کا سہارا لے سکتا ہے۔ اس حدیث سے مسجد میں نماز باجماعت کے اہتمام کی اہمیت بھی واضح ہو جاتی ہے۔
٭ تَوَشَّحَ بِهِ: تَوْشِیْح اس حالت کو کہتے ہیں کہ کوئی چادر یا کمبل وغیرہ کو اچھی طرح نہ اوڑھے بلکہ اس کو دونوں کندھوں پر ڈ ال دے کہ اس کا کچھ حصہ ایک طرف آجائے اور کچھ حصہ دوسری طرف چلا جائے۔
تخریج :
اس حدیث کی تخریج و تشریح باب ماجاء في لباس رسول الله صلى الله عليه وسلم میں گزرچکی ہے۔
٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے والد سیّدنا زید رضی اللہ عنہ کو اپنا متبنی بنایا تھا ان باپ اور بیٹے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حدمحبت تھی۔ ضعف اور کمزوری کی وجہ سے اکیلے چلنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قاصر تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہما بن زید کا سہارا لیا ہوا تھا۔ صحیح بخاری(سیّدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہماکا ذکر صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب استخلاف الإمام، حدیث:۹۱؍۴۱۸ میں ہے اور سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کا ذکر سنن الدارقطنی میں ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: فتح الباري (۲؍۲۶۲ تحت رقم الحدیث:۶۶۵)۔)کی روایت میں تین آدمیوں پر سہارا لینے کا ذکر ہے۔ دوسرے سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ اور تیسرے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے۔
٭ اس حدیث سے معلوم ہو کہ آدمی عذر کی وجہ سے کسی دوسرے آدمی کا سہارا لے سکتا ہے۔ اس حدیث سے مسجد میں نماز باجماعت کے اہتمام کی اہمیت بھی واضح ہو جاتی ہے۔
٭ تَوَشَّحَ بِهِ: تَوْشِیْح اس حالت کو کہتے ہیں کہ کوئی چادر یا کمبل وغیرہ کو اچھی طرح نہ اوڑھے بلکہ اس کو دونوں کندھوں پر ڈ ال دے کہ اس کا کچھ حصہ ایک طرف آجائے اور کچھ حصہ دوسری طرف چلا جائے۔