كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي تَكَأَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى ،حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: ((رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ)) قَالَ أَبُو عِيسَى: ((لَمْ يَذْكُرْ وَكِيعٌ عَلَى يَسَارِهِ، وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ إِسْرَائِيلَ نَحْوَ رِوَايَةِ وَكِيعٍ، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى فِيهِ عَلَى يَسَارِهِ إِلَّا مَا رَوَاهُ إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنِ إِسْرَائِيلَ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تکیہ مبارک کابیان
امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روا یت میں وکیع نے علی یسارہ کا لفظ ذکر نہیں کیا اسی طرح بہت سے راویوں نے اسرائیل سے وکیع کی طرح یہ حدیث روایت کی ہے اور ہمارے علم میں نہیں کہ اس حدیث میں ’’علی یساره ‘‘ کا لفظ اسرائیل سے اسحاق بن منصور کے علاوہ کسی دوسرے راوی نے روایت کیا ہو۔
تشریح :
دراصل امام ترمذی رحمہ اللہ کو اس باب کی پہلی حدیث کے الفاظ ’’عَلیٰ یَسَارِہِ ‘‘پر اعتراض ہے کہ یہ روایت ان کے پاس کئی طرق سے مروی ہے مگر اسحاق بن منصور کے علاوہ کسی نے بھی ’’ عَلیٰ یَسَارِهِ ‘‘کے الفاط ذکر نہیں کیے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ شاید ’’علی یسارہ‘‘ کے الفاظ سہواً زیادہ نقل ہوگئے ہیں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کا تجزیہ بجا طور پر درست ہے، مگر ہو سکتا ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکیہ بائیں طرف رکھا ہو تو اس وقت کسی عذر کی بنا ء پر ایسا کیا ہو۔ ویسے بھی تکیہ کو دائیں جانب رکھنا لازم نہیں بلکہ اوّلیت کی بات ہے اور بائیں طرف تکیہ رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اسحاق بن منصور صحیح و ثقہ راوی ہیں اور صحیح وثقہ کی زیادت قبول ہوتی ہے۔ والله اعلم بالصواب
ہاں اس حدیث سے یہ واضح ہے کہ تکیہ پر ٹیک لگا کر بیٹھنا درست ہے یہ تکبر کی علامت نہیں بلکہ راحت اور آرام کی غرض سے ایسا کرنا جائز ہے۔
بَابُ مَاجَاءَ فِيْ تُکَأَةِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلى الله علیه وسلم مکمل ہوا۔ والحمد للّٰه علی ذالك۔
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن ترمذي ، کتاب الأدب (۵؍۲۷۷۱)وقال: حدیث صحیح۔ مکمل تخریج کے لیے حدیث نمبر ۱۲۶ ملاخطہ فرمائیں۔
دراصل امام ترمذی رحمہ اللہ کو اس باب کی پہلی حدیث کے الفاظ ’’عَلیٰ یَسَارِہِ ‘‘پر اعتراض ہے کہ یہ روایت ان کے پاس کئی طرق سے مروی ہے مگر اسحاق بن منصور کے علاوہ کسی نے بھی ’’ عَلیٰ یَسَارِهِ ‘‘کے الفاط ذکر نہیں کیے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ شاید ’’علی یسارہ‘‘ کے الفاظ سہواً زیادہ نقل ہوگئے ہیں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کا تجزیہ بجا طور پر درست ہے، مگر ہو سکتا ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکیہ بائیں طرف رکھا ہو تو اس وقت کسی عذر کی بنا ء پر ایسا کیا ہو۔ ویسے بھی تکیہ کو دائیں جانب رکھنا لازم نہیں بلکہ اوّلیت کی بات ہے اور بائیں طرف تکیہ رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اسحاق بن منصور صحیح و ثقہ راوی ہیں اور صحیح وثقہ کی زیادت قبول ہوتی ہے۔ والله اعلم بالصواب
ہاں اس حدیث سے یہ واضح ہے کہ تکیہ پر ٹیک لگا کر بیٹھنا درست ہے یہ تکبر کی علامت نہیں بلکہ راحت اور آرام کی غرض سے ایسا کرنا جائز ہے۔
بَابُ مَاجَاءَ فِيْ تُکَأَةِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلى الله علیه وسلم مکمل ہوا۔ والحمد للّٰه علی ذالك۔