شمائل ترمذی - حدیث 128

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي تَكَأَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْأَقْمَرِ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَمَّا أَنَا فَلَا آكُلُ مُتَّكِئًا))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 128

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تکیہ مبارک کابیان ’’سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو ٹیک لگا کر نہیں کھاتا ہوں۔‘‘
تشریح : ٭ اپنے متعلق خصوصیت سے ذکر فرمایا : بعض علماء نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ عمل یعنی اتکا ء واستناد کی حالت میں نہ کھانا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے امت کے لیے اس میں کوئی پابندی نہیں۔ جیسا کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن القاص سے نقل کیا ہے۔مگر یہ درست نہیں ہے، صحیح بات یہی ہے کہ یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے بھی مکروہ ہے۔ کیونکہ یہ کام جہلا ء اور سلاطین عجم کا تھا کہ بڑے تکبر ونخوت سے ٹیک لگا کر کھانا کھاتے۔ ٭ میرک کہتے ہیں کہ محققین علماء نے ٹیک لگا کر کھانے کی چارصورتیں بیان کی ہیں جو کہ تمام کی تمام مذموم ہیں : (۱) دونوں پہلوؤ ں میں سے کسی ایک پر تکیہ لگانا۔ (۲) کسی ایک ہاتھ پر ٹیک لگانا۔ (۳) چوکڑی مار کر کسی گدّے وغیرہ سے ٹیک لگانا (۴) دیوار یا تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹھنا۔ کیونکہ ان چاروں صورتوں میں تکبر اور غرور پایا جاتا ہے، جبکہ سنت یہ ہے کہ کھانے کی طرف مائل ہو کر بیٹھے۔ ٭ اس حدیث کا سبب ایک قصہ ہے جو سنن ابن ماجة اور طبرانی میں بسند حسن سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بھنی ہوئی بکری بطور تحفہ پیش کی گئی تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اسے تناول فرمانے کے لیے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ ایک اعرابی نے یہ حالتِ جلسہ دیکھ کر عرض کیا: مَا هٰذِهِ الْجِلْسَةُ؟ یہ کیسا بیٹھنا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’إِنَّ اللّٰهَ جَعَلَنِيْ عَبْدًاکَرِیَمًا وَلَمْ یَجْعَلْنِي جَبَّارًا عَنِیْدًا‘‘ (سنن ابن ماجة، کتاب الأطعمة، باب الأکل متکئا، حدیث:۳۲۶۳۔)کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے شریف بندہ بنایا ہے اور مجھے جابر وسرکش نہیں بنایا۔ ٭ ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل بطورِ تواضع کیا تھا۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو ایک بندہ ہوں اسی طرح کھاتا ہوں جس طرح بندہ کھاتا ہے، اور اسی طرح بیٹھتا ہوں جس طرح کوئی عام آدمی بیٹھتا ہے۔( طبقات ابن سعد (۱؍۳۸۱)۔ مسند أبي یعلي (۴۹۲۰)۔ السنن الکبری للبیهقی (۹؍۱۹)۔) (فتح الباري ۹؍۵۴۱) ٭ امام زھری کہتے ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا فرشتہ آیا جو اس سے قبل کبھی نہیں آیا تھا تو اس نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا ہے کہ آپ عَبْدًا نَبِیًّا بنو یا مَلِگًا نَبِیًّا بنو، جبرائیل امین علیہ السلام بھی وہاں موجود تھے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل امین علیہ السلام کی طرف بطور مشورہ لینے دیکھا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کیا کہ آپ تواضع اختیار کیجیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں عَبْدًا نَبِیًّاہو نا پسند کرتا ہوں۔( مصنف عبد الرزاق (۵۲۴۷) عن الزهری، السنن الکبری للنسائي (۶۷۴۳)۔ دلائل النبوة للبیهقي (۱؍۳۲۰)۔ عن ابن عباس رضی الله عنهما ۔ مسند أحمد (۲؍۳۲۱) عن ابی هریرة رضي الله عنه ۔) یہ روایت معضل یا مرسل ہے جبکہ امام نسائی نے اسے موصول نقل فرمایا ہے۔ ٭ سیدنا عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی تکیہ لگا کر کھانا تناول نہیں فرمایا۔ (سنن أبي داود، کتاب الأطعمة، باب ما جاء فی الأکل متکئا، حدیث:۳۷۷۱۔) ٭ تکیہ یا ٹیک لگا کر کھانے کے حکم میں علماء کا اختلاف ہے ابن القاص رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ تکیہ لگا کر کھانے کی کراہیت صرف خصائص نبوت سے ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے ان کا تعاقب کیا ہے کہ یہ عمل دیگر لوگوں کےلیے بھی درست نہیں کیونکہ یہ عیش پر ستوں اور متکبرین کا اندازِ اکل وشرب ہے، اصل میں یہ طریقہ ملوکِ عجم سے ماخوذ ہے۔ ہاں اگر مجبوری ہو تو اس میں کوئی کراہت نہ ہو گی۔ اس کراہیت کی علت میں بھی اختلاف ہے اس بارے میں جو سب سے زیادہ روایت وارد ہوئی ہے وہ ابن ابی شیبہ نے بیان کی ہے کہ صحابہ کرام تکیہ لگا کر کھانا اس لیے مکروہ جانتے تھے کہ کہیں ان کے پیٹ نہ بڑھ جائیں، اسی طرح صاحبِ نہایہ نے بھی یہ وجہ بیان کی ہے، اور بقیہ روایات سے بھی یہی ثابت ہو تا ہے۔ کھانا کھاتے وقت بیٹھنے کا مستحب طریقہ گھٹنوں اور پاؤں پر بیٹھنا ہے یا دائیں گھٹنے کو کھڑا کر کے بائیں پر بیٹھ جائے یااس کے برعکس کر لے۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب الأطعمة (۹؍۵۳۹۸،۵۳۹۹)، سنن أبي داود،کتاب الأطعمة (۳؍۳۷۶۹)، سنن ترمذي ،کتاب الأطعمة (۴؍۱۸۳۰)وقال: حدیث حسن صحیح، سنن ابن ماجة کتاب الأطعمة (۲؍۳۲۶۲)، مسند أحمد بن حنبل (۴؍۳۰۸،۳۰۹)، سنن کبرٰی للبیهقي (۷؍۴۹)، مسند حمیدي (۸۳۲)۔ ٭ اپنے متعلق خصوصیت سے ذکر فرمایا : بعض علماء نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ عمل یعنی اتکا ء واستناد کی حالت میں نہ کھانا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے امت کے لیے اس میں کوئی پابندی نہیں۔ جیسا کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن القاص سے نقل کیا ہے۔مگر یہ درست نہیں ہے، صحیح بات یہی ہے کہ یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے بھی مکروہ ہے۔ کیونکہ یہ کام جہلا ء اور سلاطین عجم کا تھا کہ بڑے تکبر ونخوت سے ٹیک لگا کر کھانا کھاتے۔ ٭ میرک کہتے ہیں کہ محققین علماء نے ٹیک لگا کر کھانے کی چارصورتیں بیان کی ہیں جو کہ تمام کی تمام مذموم ہیں : (۱) دونوں پہلوؤ ں میں سے کسی ایک پر تکیہ لگانا۔ (۲) کسی ایک ہاتھ پر ٹیک لگانا۔ (۳) چوکڑی مار کر کسی گدّے وغیرہ سے ٹیک لگانا (۴) دیوار یا تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹھنا۔ کیونکہ ان چاروں صورتوں میں تکبر اور غرور پایا جاتا ہے، جبکہ سنت یہ ہے کہ کھانے کی طرف مائل ہو کر بیٹھے۔ ٭ اس حدیث کا سبب ایک قصہ ہے جو سنن ابن ماجة اور طبرانی میں بسند حسن سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بھنی ہوئی بکری بطور تحفہ پیش کی گئی تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اسے تناول فرمانے کے لیے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ ایک اعرابی نے یہ حالتِ جلسہ دیکھ کر عرض کیا: مَا هٰذِهِ الْجِلْسَةُ؟ یہ کیسا بیٹھنا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’إِنَّ اللّٰهَ جَعَلَنِيْ عَبْدًاکَرِیَمًا وَلَمْ یَجْعَلْنِي جَبَّارًا عَنِیْدًا‘‘ (سنن ابن ماجة، کتاب الأطعمة، باب الأکل متکئا، حدیث:۳۲۶۳۔)کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے شریف بندہ بنایا ہے اور مجھے جابر وسرکش نہیں بنایا۔ ٭ ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل بطورِ تواضع کیا تھا۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو ایک بندہ ہوں اسی طرح کھاتا ہوں جس طرح بندہ کھاتا ہے، اور اسی طرح بیٹھتا ہوں جس طرح کوئی عام آدمی بیٹھتا ہے۔( طبقات ابن سعد (۱؍۳۸۱)۔ مسند أبي یعلي (۴۹۲۰)۔ السنن الکبری للبیهقی (۹؍۱۹)۔) (فتح الباري ۹؍۵۴۱) ٭ امام زھری کہتے ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا فرشتہ آیا جو اس سے قبل کبھی نہیں آیا تھا تو اس نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا ہے کہ آپ عَبْدًا نَبِیًّا بنو یا مَلِگًا نَبِیًّا بنو، جبرائیل امین علیہ السلام بھی وہاں موجود تھے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل امین علیہ السلام کی طرف بطور مشورہ لینے دیکھا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کیا کہ آپ تواضع اختیار کیجیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں عَبْدًا نَبِیًّاہو نا پسند کرتا ہوں۔( مصنف عبد الرزاق (۵۲۴۷) عن الزهری، السنن الکبری للنسائي (۶۷۴۳)۔ دلائل النبوة للبیهقي (۱؍۳۲۰)۔ عن ابن عباس رضی الله عنهما ۔ مسند أحمد (۲؍۳۲۱) عن ابی هریرة رضي الله عنه ۔) یہ روایت معضل یا مرسل ہے جبکہ امام نسائی نے اسے موصول نقل فرمایا ہے۔ ٭ سیدنا عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی تکیہ لگا کر کھانا تناول نہیں فرمایا۔ (سنن أبي داود، کتاب الأطعمة، باب ما جاء فی الأکل متکئا، حدیث:۳۷۷۱۔) ٭ تکیہ یا ٹیک لگا کر کھانے کے حکم میں علماء کا اختلاف ہے ابن القاص رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ تکیہ لگا کر کھانے کی کراہیت صرف خصائص نبوت سے ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے ان کا تعاقب کیا ہے کہ یہ عمل دیگر لوگوں کےلیے بھی درست نہیں کیونکہ یہ عیش پر ستوں اور متکبرین کا اندازِ اکل وشرب ہے، اصل میں یہ طریقہ ملوکِ عجم سے ماخوذ ہے۔ ہاں اگر مجبوری ہو تو اس میں کوئی کراہت نہ ہو گی۔ اس کراہیت کی علت میں بھی اختلاف ہے اس بارے میں جو سب سے زیادہ روایت وارد ہوئی ہے وہ ابن ابی شیبہ نے بیان کی ہے کہ صحابہ کرام تکیہ لگا کر کھانا اس لیے مکروہ جانتے تھے کہ کہیں ان کے پیٹ نہ بڑھ جائیں، اسی طرح صاحبِ نہایہ نے بھی یہ وجہ بیان کی ہے، اور بقیہ روایات سے بھی یہی ثابت ہو تا ہے۔ کھانا کھاتے وقت بیٹھنے کا مستحب طریقہ گھٹنوں اور پاؤں پر بیٹھنا ہے یا دائیں گھٹنے کو کھڑا کر کے بائیں پر بیٹھ جائے یااس کے برعکس کر لے۔