شمائل ترمذی - حدیث 127

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي تَكَأَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ،حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ،حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ؟)) قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: ((الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ)) . قَالَ: وَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ مُتَّكِئًا قَالَ: ((وَشَهَادَةُ الزُّورِ،)) أَوْ ((قَوْلُ الزُّورِ)) قَالَ: فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهَا حَتَّى قُلْنَا: لَيْتَهُ سَكَتَ

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 127

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تکیہ مبارک کابیان ’’سیدنا ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمھیں کبیرہ گناھوں میں سے بڑے بڑے گناہ نہ بتاؤں ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ) عرض کیا: جی ہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک بنا نا، اور والدین کی نافرمانی کرنا‘‘ ابوبکرۃ فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پھر بیٹھ گئے جبکہ پہلے ٹیک لگائے ہوئے تھے تو فرمانے لگے: ’’اور جھوٹی گواہی‘‘ یا فرمایا: ’’اور جھوٹی بات‘‘ راوی کہتا ہے (اس آخری کلمے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار دہراتے رہے حتی کہ ہم نے کہا کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو جائیں۔‘‘
تشریح : تین بڑے بڑے گناہ : ٭ أُحَدِّثکُمْ بعض صحیح روایات میں أَ لَا أُخْبِرُ کُمْ (صحیح بخاري، کتاب الاستئذان، باب من اتکأبین یدي أصحابه، حدیث:۶۲۷۳۔)اور ایک روایت میں أَ لَا أُ نَبّئُکُمْ (صحیح بخاري، کتاب الشهادات، باب ما قیل في شهادة الزور، حدیث:۲۶۵۴۔ صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب الکبائر وأ کبرها، حدیث:۸۷۔)کے الفاظ ہیں معنی تمام الفاظ کا ایک ہی ہے۔ ٭ کیا میں تمھیں نہ بتاؤں، اندازِ خطاب کا یہ طریقہ سامعین کو متوجہ کرنے کے لیے اور جو بات بتانی مقصود ہو اس کی وقعت وشان بیان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ٭ بعض روایات میں أَ لَا أُ نَبِّئُکُمْ بِأَ کْبَرِ الْکَبَائِرِ کے الفاظ تین مرتبہ ہیں ملا علی القاری نے جمع الوسائل میں لکھا ہے کہ ایسا اِهْتِمَا مًابِشَاْنِ الْخَبَرِ الْمَذکُوْرِ أَنَّهُ أَمْرٌ لَهُ شَأَنٌ۔ گناہ ِ کبیرہ کسے کہتے ہیں : ٭ حدیث الباب میں کبائر کا ذ کر ہے کبائر کبیرةٌ کی جمع ہے اکبر الکبائر کا معنی گناھوں میں بڑا اور شنیع گناہ، البتہ کبیرۃ کی تعریف میں اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے کہ جس گناہ کے ارتکاب پر کوئی حد مقرر ہو وہ کبیرہ، باقی سب صغیرہ ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جس کے ارتکاب پر کتاب وسنت میں وعید شدید ہو وہ کبیرہ ہے اگرچہ اس پر کوئی حد مقرر نہ ہو۔ تیسرا قول یہ ہے کہ کبیرہ گناہ وہ ہو تا ہے جس کا کرنے والا اس کی کم پر واہ کرے۔ اس کی تائید میں وہ روایت ہے جس میں آتا ہے کہ گناہ پر اصرار کرنے سے صغیرہ گناہ بھی کبیرہ بن جاتا ہے۔ جیسا کہ استغفار وتوبہ کرنے سے کبیرہ گناہ بھی کبیرہ نہیں رہتا۔ ہمارے نزدیک دوسرا قول زیادہ صحیح معلوم ہو تا ہے اگرچہ علامہ بیجوری نے تیرے قول کو اشمل التعاریف کہا ہے اور پھر اس پر بھی کلام کیا ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ کبیرہ کی صحیح تعریف مبہم ہے جس طرح اسم اعظم، لَیْلَةُ الْقَدر، سَا عَةُ الْجُمُعَةِ، وَقْتُ اِجَا بَةِ الدُّ عَاءِ لَیْلاً وغیرها۔ اور حکمت یہ ہے کہ ہر معصیت سے بچا جائے چاہے جھوٹی ہو یا بڑی، کیونکہ چھوٹا گناہ کرنے سے بڑے گناہ میں وقوع کا اندیشہ ہو تا ہے۔ ٭ بعض علماء نے کبیرہ گناہوں پر مستقل کتابیں تصنیف فرمائیں ہیں جیسا کہ ا مام ذہبی کی کتاب الکبائر (جس میں ستر کبیرہ گناھوں کا تذکرہ ہے )اور ابن حجر مکی کی الزواجر ہے ( جس میں قریباً (۴۶۷)کبیرہ گناہوں کا تذکرہ ہے ) ٭ کبیرہ گناہ مختصراً مندرجہ ذیل ہیں : الشرک باللہ، قتل ناحق، زنا، لواطت، شراب نوشی، قذف، جھوٹی شہادت، کتمانِ شہادت، جھوٹی قسم، غصب، جنگ سے فرار، سود خوری، اکل مال الیتیم، رشوت خوری،عقوقِ والدین، قطع رحمی، کذب علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عمداً، بلا عذر روزہ افطار کر لینا، کیل و وزن میں کمی، فرض نمازوں میں تقدیم وتاخیر، ترک زکوٰۃ، ضربِ مسلم اور ذ می، سبِّ صحابی، غیبت اور چغلی، جادو کرنا اور کروانا، ترکِ امربالمعروف و نہی عن المنکر، نسیانِ قرآن، عصیانِ شوہر وغیرہ۔ ٭ حدیث الباب میں تین کبیرہ گناھوں کا ذکر ہے، ذیل میں ان کی تفصیل درج ہے۔ ۱: اَلْإِ شْرَ اكُ بِاللهِ: اَلْإِ شْرَ اک کا لغوی معنی ہے جَعْلُ أَحَدٍ شَرِیْکًا لِأَ خَرَ لیکن یہاں غیر اللہ کو الہ بنانا مراد ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَكَ بِهِ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَشَاءُ﴾[النساء:۴۸،۱۱۶] یقیناً اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرمائیں گے اس کے علاوہ دیگر گناہ جس کو چاہیں گے معاف فرمادیں گے۔ اسی طرح حدیث قدسی ہے کہ ’’مَن لَقِیَنِيْ بِقُرَابِ الْاَرْضِ خَطَایَا ثُمَّ أَتَانِیْ لَا یُشْرِكْ بِيْ شَیْئًا لَقِیْتُهُ بِمِثْلِهَا مَغْفِرَةً‘‘ (سنن ترمذي ، کتاب الدعوات، باب (۱۰۷)، حدیث:۳۵۴۰ وقال: حسن غریب۔) جو میرے پاس زمین بھر کر گناہ لے آئے لیکن شرک نہ کیا ہو تو میں اتنی ہی مغفرت لے کر اس کو ملوں گا، قرآنی آیت اور حدیث قدسی سے واضح ہے کہ شرک ایسا کبیرہ گناہ ہے کہ اگر اس سے تو بہ کئے بغیر انسان کی موت آجائے تو اسے کبھی معافی نہیں ملے گی، شرک چاہے ذات میں ہو، صفات میں ہو، عبادت میں ہو، استعانت میں ہو، علم وقدرت میں ہو یا تصرف وتدبیر میں ہو۔ ۲: وَعُقُوْ قُ الْوَالِدَیْنِ: ماں باپ دونوں کی نافرمانی یا ان میں سے ایک کی نافرمانی، دونوں کا اکٹھا ذکر اس لیے کیا کہ دونوں میں سے ایک کی نافرمانی دوسرے کی نافرمانی کی طرف پہنچائی ہے۔ کتاب وسنت میں ان کے مفصل حقوق ذکر کیے گیے ہیں، البتہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ان کی بات نہ مانی جائے، قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاِنْ جَا هَدٰكَ عَلیٰ اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا﴾ یعنی ’’اگر وہ تجھ سے اس بات پر جھگڑیں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا جس کا تجھے کوئی علم نہیں، تو ان کا کہنا نہ مان۔ اور دنیاوی معاملات میں ان سے حسن سلوک کر۔ ‘‘ اس آیت کریمہ میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ والدین کی نافرمانی حرام ہے خواہ وہ کافر اور غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں، اسی طرح حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے کہ ’’لَا طَا عَةَ لِمَخْلُوْقٍ فِيْ مَعْصِیَةِ الْخَالِقِ‘‘ (شرح السنة للبغوي(۲۴۵۵)۔ مسند احمد (۵؍۶۶)۔)جہاں مخلوق کی اطاعت میں خالق (اللہ تعالیٰ )کی نافرمانی ہو وہاں مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔ اس کا ضابطہ ابن عطیہ رحمہ اللہ نے یہ بیان کیا ہے کہ مباحات میں ان کی اطاعت واجب ہو گی اور مستحبات اور فروض کفایہ میں مندوب ہو گی۔ ۳: سوال وجواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس چیز کا زیادہ خیال رکھتے جس کو زیادہ اہم سمجھتے، جیسا کہ حدیث الباب میں ہے کہ تیسری چیز کو بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے جبکہ اس سے قبل ٹیک لگائے ہوئے تھے تا کہ جو چیز اب بیان ہو نے والی ہے اس کی اہمیت ظاہر ہو۔ پھر شَھَادَۃُ الزُّوْرِ کا ذکر فرمایا۔ اس کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ لوگ اس میں سستی کر جاتے ہیں اور یہ آسانی سے عمل میں آجاتی ہے۔ کیونکہ شرک سے مسلمان کا دل نفرت اور دوری رکھتا ہے، عقوق والدین کا ارتکاب بھی عقل سلیم اور سمجھدار آدمی کبھی نہیں کرتا، مگر جھوٹی شہادت کے اسباب و محرکات بہت سی چیزیں ہیں مثلا ً عداوت، حسد و کینہ وغیرہ، اس لیے اس کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ ورنہ یہ گناہ شرک کے ہم مرتبہ نہیں کہ اس وجہ سے اس کو اہم قرار دیا گیا ہو بلکہ اس لیے اس کو اہمیت دی گئی کہ اس کی مفسدت وسیع ہے جو گواہوں اور دیگر لوگوں تک پہنچ جاتی ہے اور پھر زنا، قتل وغیرہ بہت سی دیگر ضرر انگیز اشیاء میں اس پر حکم مرتب ہو تا ہے۔ ۴: اشراک باللہ اور قول الزور کے درمیان میں عقوق والدین کو اس لیے لایا گیا ہے کہ عقوق بھی کبھی کبھی کفر اور شرک تک پہنچادیتی ہے جس طرح کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے دلائل النبوۃ اور شعب الایمان میں، امام دارقطنی رحمہ اللہ نے السنن میں روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س آ یا اور کہنے لگا کہ یہاں ایک لڑکا ہے جو مرنے کے قریب ہے اور اس کو کہا جاتا ہے کہ وہ ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ‘‘ کہے تو وہ نہیں کہہ پاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا وہ اپنی گذشتہ زندگی میں کلمہ نہیں کہتا تھا ؟ تو لوگوں نے کہا: وہ کلمہ طیبہ کہا کرتا تھا تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر کس چیز نے اس کو موت کے وقت ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ‘‘ کہنے سے روک دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھے اور اس لڑکے کے پاس آگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے لڑکے ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ‘‘ کہو۔ تو اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں یہ نہیں کہہ سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:کیوں ؟ تو وہ کہنے لگا: اپنی والد ہ کی نافرمانی کی وجہ سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا وہ بقید حیات ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلایا اور فرمایا : کیا یہ تیرا بیٹا ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں آگ جلاؤں اور تجھے کہا جائے کہ اپنے بیٹے کی سفارش کر، اگر تو نے اس کی سفارش نہ کی تو ہم اس کو آگ میں ڈال دیں گے۔ وہ کہنے لگی: تب تو اس کی سفارش کروں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اللہ تعالیٰ اور ہمیں گواہ بنادے کہ تو اس سے راضی ہو گئی ہے۔ تو اس نے کہا: میں اس سے راضی ہو گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے لڑکے ! اب لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کہو تو اس نے لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کہہ دیا۔ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الحمد للہ کہ اس نے اس لڑکے کو آگ سے بچالیا۔ (دلائل النبوة للبهقي (۶؍۴۱۵) وشعب الإیمان (۷۶۵۰) وإسناده ضعیف جداً۔ فائد بن عبد الرحمن راوی متروك ہے۔) کسی نے پوچھا یا رسول اللہ ! میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیری ماں۔ صحابی نے چار مرتبہ پوچھا تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہی فرمایا اور چوتھی دفعہ فرمایا : تیرا باپ۔( صحیح بخاري، کتاب الأدب، باب من أحق الناس بحسن الصحبة، حدیث:۵۹۷۱۔ صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب بر الوالدین، حدیث:۲۵۴۸۔) صحیح مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس آ دمی کی ناک خاک آلود ہو، تین مرتبہ یہ فرمایا۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم کس کی ؟ تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو اپنے والدین کو یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پا لے اور پھر بھی جنت میں نہ جاسکے۔ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب رغم من أدرك أبویه أو أحدهما...، حدیث:۲۵۵۱۔) صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ہی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کو مشرکہ ماں سے بھی حسن سلوک کا حکم دیا۔ ( صحیح بخاري، کتاب الأدب، باب صلة المرأة أمهاولها زوج، حدیث:۵۹۷۹۔ صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب فضل النفقة والصدقة علی الأقربین، حدیث:۱۰۰۳۔ صحیح بخاری ومسلم میں ہی روایت ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمُ عَلَیْکُمْ عُقُوْقَ الْاُ مَّهَاتِ‘‘ (صحیح بخاري، کتاب الأدب، باب عقوق الوالدین من الکبائر، حدیث:۵۹۷۵۔ صحیح مسلم، کتاب الأقضیة، باب النهي عن کثره المسائل من غیر حاجة، حدیث:۱۳؍۵۹۳۔)کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر اپنی ماؤں کی نافرمانی حرام قرار دی ہے۔ ۵: قَوْلُ الزُّ وْرِ : چھوٹی بات، زُوْر جھوٹ اور باطل کو کہا جاتا ہے۔ راوی حدیث فرماتے ہیں کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہی کلمہ فرمانے لگے یہاں تک کہ ہم نے کہا: کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو جائیں۔ تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ ہو یا کوئی زیادہ سخت اور شدت والا حکم نہ نازل ہو جائے۔ جھوٹ بھی کبائر میں سے ایک ہے۔ صحیح بخاری (صحیح بخاري، کتاب الأدب، باب عقوق الوالدین من الکبائر، حدیث:۵۹۷۶، ۵۹۷۷۔)میں قَوْلُ الزُّوْرِ کے بجائے شَهَادَةُ الزُّوْرِ کے الفاظ ہیں ایک دوسری روایت میں یَمِیْنِ غُمُوْس (صحیح بخاري، کتاب الإیمان والنذور، باب الیمین الغموس، حدیث:۶۶۷۵۔)کو کبائر میں شامل کیا گیا ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چار علامتیں منافق کی ہیں۔ جس میں یہ ہوں وہ خالص منافق ہے، اور جس میں ان میں سے ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، جب امانت دار سمجھاجائے تو وہ خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے، جب کسی سے جھگڑے تو گالیاں دے۔ ‘‘(صحیح بخاري، کتاب الإیمان، باب علامات المنافق، حدیث:۳۴۔ صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب خصال المنافق، حدیث:۵۸۔) صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((عَلَیْکُمْ بِالِصّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ یَهْدِیْ إِلیٰ الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ یَهْدِیْ إِلیٰ الْجَنَّةِ وَمَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَصْدُقُ وَیَتَحَرَّی للِصِّدْقِ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدْاللّٰهِ صَدِّیْقًا، وَإِیَّاکُمْ وَالْکِذْبَ فَإِنَّ الْکِذْبَ یَهْدِیْ إِلیٰ الْفُجُوْرِ وَإِنَّ الْفُجُوْرَ یَهْدِیْ إِلیٰ النَّارِ وَمَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَکْذِبُ وَیَتَحَرَّی لِلْکذِْبِ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَ اللّٰهِ کَذَّ ابًا))(صحیح بخاري، کتاب الأدب،باب قول اللّٰه تعالی﴿یاأیها الذین آمنوا اتقوا اللّٰه...﴾، حدیث:۶۰۹۴۔ صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب قبح الکذب وحسن الصدق، حدیث:۱۰۵؍۲۶۰۷ واللفظ له۔) ’’سچائی کو اپنے اوپر لازم کر لو کہ سچائی نیکی کی طرف راہنمائی کرتی ہے، اور نیکی جنت کی طرف راہنمائی کرتی ہے، انسان ہمیشہ سچ بولتا ہے اور سچ کو تلاش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدیق کہلاتا ہے۔ اور اپنے آپ کو جھوٹ سے بچاؤ کہ جھوٹ گناہ کی طرف پہنچاتا ہے، اور گناہ آگ کی طرف، انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کو تلاش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ جھوٹا لکھا جاتا ہے۔‘‘ سنن ترمذي ، سنن ابی داؤد اور سنن دارمی میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس شخص کے لیے ویل ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے، اس کے لیے ہلاکت ہو، ہلاکت ہو۔‘‘( سنن أبي داود، کتاب الأدب، باب التشدید في الکذب، حدیث:۴۹۹۰۔ سنن ترمذي (۲۳۱۵)۔ سنن الدارمي (۲۷۰۵)۔) اللہ تعالیٰ ہمیں تمام کبیرہ گناہوں سے محفوظ رکھے۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب الشهادات، باب ما قیل في شهادٰة الزور (۵؍۲۶۵۴)، وفي کتاب الأدب (۱۰؍۵۹۷)، وفي کتاب استتابة المرتدین (۱۲؍۶۹۱۹)، صحیح مسلم،کتاب الإیمان باب الکبائر (۱؍۱۴۳برقم۹۱)، سنن ترمذي ، أبواب البرو الصلة (۴؍۱۹۰۱)، مسند أحمد بن حنبل (۵؍۳۶،۳۸)۔ تین بڑے بڑے گناہ : ٭ أُحَدِّثکُمْ بعض صحیح روایات میں أَ لَا أُخْبِرُ کُمْ (صحیح بخاري، کتاب الاستئذان، باب من اتکأبین یدي أصحابه، حدیث:۶۲۷۳۔)اور ایک روایت میں أَ لَا أُ نَبّئُکُمْ (صحیح بخاري، کتاب الشهادات، باب ما قیل في شهادة الزور، حدیث:۲۶۵۴۔ صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب الکبائر وأ کبرها، حدیث:۸۷۔)کے الفاظ ہیں معنی تمام الفاظ کا ایک ہی ہے۔ ٭ کیا میں تمھیں نہ بتاؤں، اندازِ خطاب کا یہ طریقہ سامعین کو متوجہ کرنے کے لیے اور جو بات بتانی مقصود ہو اس کی وقعت وشان بیان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ٭ بعض روایات میں أَ لَا أُ نَبِّئُکُمْ بِأَ کْبَرِ الْکَبَائِرِ کے الفاظ تین مرتبہ ہیں ملا علی القاری نے جمع الوسائل میں لکھا ہے کہ ایسا اِهْتِمَا مًابِشَاْنِ الْخَبَرِ الْمَذکُوْرِ أَنَّهُ أَمْرٌ لَهُ شَأَنٌ۔ گناہ ِ کبیرہ کسے کہتے ہیں : ٭ حدیث الباب میں کبائر کا ذ کر ہے کبائر کبیرةٌ کی جمع ہے اکبر الکبائر کا معنی گناھوں میں بڑا اور شنیع گناہ، البتہ کبیرۃ کی تعریف میں اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے کہ جس گناہ کے ارتکاب پر کوئی حد مقرر ہو وہ کبیرہ، باقی سب صغیرہ ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جس کے ارتکاب پر کتاب وسنت میں وعید شدید ہو وہ کبیرہ ہے اگرچہ اس پر کوئی حد مقرر نہ ہو۔ تیسرا قول یہ ہے کہ کبیرہ گناہ وہ ہو تا ہے جس کا کرنے والا اس کی کم پر واہ کرے۔ اس کی تائید میں وہ روایت ہے جس میں آتا ہے کہ گناہ پر اصرار کرنے سے صغیرہ گناہ بھی کبیرہ بن جاتا ہے۔ جیسا کہ استغفار وتوبہ کرنے سے کبیرہ گناہ بھی کبیرہ نہیں رہتا۔ ہمارے نزدیک دوسرا قول زیادہ صحیح معلوم ہو تا ہے اگرچہ علامہ بیجوری نے تیرے قول کو اشمل التعاریف کہا ہے اور پھر اس پر بھی کلام کیا ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ کبیرہ کی صحیح تعریف مبہم ہے جس طرح اسم اعظم، لَیْلَةُ الْقَدر، سَا عَةُ الْجُمُعَةِ، وَقْتُ اِجَا بَةِ الدُّ عَاءِ لَیْلاً وغیرها۔ اور حکمت یہ ہے کہ ہر معصیت سے بچا جائے چاہے جھوٹی ہو یا بڑی، کیونکہ چھوٹا گناہ کرنے سے بڑے گناہ میں وقوع کا اندیشہ ہو تا ہے۔ ٭ بعض علماء نے کبیرہ گناہوں پر مستقل کتابیں تصنیف فرمائیں ہیں جیسا کہ ا مام ذہبی کی کتاب الکبائر (جس میں ستر کبیرہ گناھوں کا تذکرہ ہے )اور ابن حجر مکی کی الزواجر ہے ( جس میں قریباً (۴۶۷)کبیرہ گناہوں کا تذکرہ ہے ) ٭ کبیرہ گناہ مختصراً مندرجہ ذیل ہیں : الشرک باللہ، قتل ناحق، زنا، لواطت، شراب نوشی، قذف، جھوٹی شہادت، کتمانِ شہادت، جھوٹی قسم، غصب، جنگ سے فرار، سود خوری، اکل مال الیتیم، رشوت خوری،عقوقِ والدین، قطع رحمی، کذب علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عمداً، بلا عذر روزہ افطار کر لینا، کیل و وزن میں کمی، فرض نمازوں میں تقدیم وتاخیر، ترک زکوٰۃ، ضربِ مسلم اور ذ می، سبِّ صحابی، غیبت اور چغلی، جادو کرنا اور کروانا، ترکِ امربالمعروف و نہی عن المنکر، نسیانِ قرآن، عصیانِ شوہر وغیرہ۔ ٭ حدیث الباب میں تین کبیرہ گناھوں کا ذکر ہے، ذیل میں ان کی تفصیل درج ہے۔ ۱: اَلْإِ شْرَ اكُ بِاللهِ: اَلْإِ شْرَ اک کا لغوی معنی ہے جَعْلُ أَحَدٍ شَرِیْکًا لِأَ خَرَ لیکن یہاں غیر اللہ کو الہ بنانا مراد ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَكَ بِهِ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَشَاءُ﴾[النساء:۴۸،۱۱۶] یقیناً اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرمائیں گے اس کے علاوہ دیگر گناہ جس کو چاہیں گے معاف فرمادیں گے۔ اسی طرح حدیث قدسی ہے کہ ’’مَن لَقِیَنِيْ بِقُرَابِ الْاَرْضِ خَطَایَا ثُمَّ أَتَانِیْ لَا یُشْرِكْ بِيْ شَیْئًا لَقِیْتُهُ بِمِثْلِهَا مَغْفِرَةً‘‘ (سنن ترمذي ، کتاب الدعوات، باب (۱۰۷)، حدیث:۳۵۴۰ وقال: حسن غریب۔) جو میرے پاس زمین بھر کر گناہ لے آئے لیکن شرک نہ کیا ہو تو میں اتنی ہی مغفرت لے کر اس کو ملوں گا، قرآنی آیت اور حدیث قدسی سے واضح ہے کہ شرک ایسا کبیرہ گناہ ہے کہ اگر اس سے تو بہ کئے بغیر انسان کی موت آجائے تو اسے کبھی معافی نہیں ملے گی، شرک چاہے ذات میں ہو، صفات میں ہو، عبادت میں ہو، استعانت میں ہو، علم وقدرت میں ہو یا تصرف وتدبیر میں ہو۔ ۲: وَعُقُوْ قُ الْوَالِدَیْنِ: ماں باپ دونوں کی نافرمانی یا ان میں سے ایک کی نافرمانی، دونوں کا اکٹھا ذکر اس لیے کیا کہ دونوں میں سے ایک کی نافرمانی دوسرے کی نافرمانی کی طرف پہنچائی ہے۔ کتاب وسنت میں ان کے مفصل حقوق ذکر کیے گیے ہیں، البتہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ان کی بات نہ مانی جائے، قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاِنْ جَا هَدٰكَ عَلیٰ اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا﴾ یعنی ’’اگر وہ تجھ سے اس بات پر جھگڑیں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا جس کا تجھے کوئی علم نہیں، تو ان کا کہنا نہ مان۔ اور دنیاوی معاملات میں ان سے حسن سلوک کر۔ ‘‘ اس آیت کریمہ میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ والدین کی نافرمانی حرام ہے خواہ وہ کافر اور غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں، اسی طرح حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے کہ ’’لَا طَا عَةَ لِمَخْلُوْقٍ فِيْ مَعْصِیَةِ الْخَالِقِ‘‘ (شرح السنة للبغوي(۲۴۵۵)۔ مسند احمد (۵؍۶۶)۔)جہاں مخلوق کی اطاعت میں خالق (اللہ تعالیٰ )کی نافرمانی ہو وہاں مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔ اس کا ضابطہ ابن عطیہ رحمہ اللہ نے یہ بیان کیا ہے کہ مباحات میں ان کی اطاعت واجب ہو گی اور مستحبات اور فروض کفایہ میں مندوب ہو گی۔ ۳: سوال وجواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس چیز کا زیادہ خیال رکھتے جس کو زیادہ اہم سمجھتے، جیسا کہ حدیث الباب میں ہے کہ تیسری چیز کو بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے جبکہ اس سے قبل ٹیک لگائے ہوئے تھے تا کہ جو چیز اب بیان ہو نے والی ہے اس کی اہمیت ظاہر ہو۔ پھر شَھَادَۃُ الزُّوْرِ کا ذکر فرمایا۔ اس کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ لوگ اس میں سستی کر جاتے ہیں اور یہ آسانی سے عمل میں آجاتی ہے۔ کیونکہ شرک سے مسلمان کا دل نفرت اور دوری رکھتا ہے، عقوق والدین کا ارتکاب بھی عقل سلیم اور سمجھدار آدمی کبھی نہیں کرتا، مگر جھوٹی شہادت کے اسباب و محرکات بہت سی چیزیں ہیں مثلا ً عداوت، حسد و کینہ وغیرہ، اس لیے اس کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ ورنہ یہ گناہ شرک کے ہم مرتبہ نہیں کہ اس وجہ سے اس کو اہم قرار دیا گیا ہو بلکہ اس لیے اس کو اہمیت دی گئی کہ اس کی مفسدت وسیع ہے جو گواہوں اور دیگر لوگوں تک پہنچ جاتی ہے اور پھر زنا، قتل وغیرہ بہت سی دیگر ضرر انگیز اشیاء میں اس پر حکم مرتب ہو تا ہے۔ ۴: اشراک باللہ اور قول الزور کے درمیان میں عقوق والدین کو اس لیے لایا گیا ہے کہ عقوق بھی کبھی کبھی کفر اور شرک تک پہنچادیتی ہے جس طرح کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے دلائل النبوۃ اور شعب الایمان میں، امام دارقطنی رحمہ اللہ نے السنن میں روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س آ یا اور کہنے لگا کہ یہاں ایک لڑکا ہے جو مرنے کے قریب ہے اور اس کو کہا جاتا ہے کہ وہ ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ‘‘ کہے تو وہ نہیں کہہ پاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا وہ اپنی گذشتہ زندگی میں کلمہ نہیں کہتا تھا ؟ تو لوگوں نے کہا: وہ کلمہ طیبہ کہا کرتا تھا تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر کس چیز نے اس کو موت کے وقت ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ‘‘ کہنے سے روک دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھے اور اس لڑکے کے پاس آگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے لڑکے ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ‘‘ کہو۔ تو اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں یہ نہیں کہہ سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:کیوں ؟ تو وہ کہنے لگا: اپنی والد ہ کی نافرمانی کی وجہ سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا وہ بقید حیات ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلایا اور فرمایا : کیا یہ تیرا بیٹا ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں آگ جلاؤں اور تجھے کہا جائے کہ اپنے بیٹے کی سفارش کر، اگر تو نے اس کی سفارش نہ کی تو ہم اس کو آگ میں ڈال دیں گے۔ وہ کہنے لگی: تب تو اس کی سفارش کروں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اللہ تعالیٰ اور ہمیں گواہ بنادے کہ تو اس سے راضی ہو گئی ہے۔ تو اس نے کہا: میں اس سے راضی ہو گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے لڑکے ! اب لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کہو تو اس نے لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کہہ دیا۔ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الحمد للہ کہ اس نے اس لڑکے کو آگ سے بچالیا۔ (دلائل النبوة للبهقي (۶؍۴۱۵) وشعب الإیمان (۷۶۵۰) وإسناده ضعیف جداً۔ فائد بن عبد الرحمن راوی متروك ہے۔) کسی نے پوچھا یا رسول اللہ ! میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیری ماں۔ صحابی نے چار مرتبہ پوچھا تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہی فرمایا اور چوتھی دفعہ فرمایا : تیرا باپ۔( صحیح بخاري، کتاب الأدب، باب من أحق الناس بحسن الصحبة، حدیث:۵۹۷۱۔ صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب بر الوالدین، حدیث:۲۵۴۸۔) صحیح مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس آ دمی کی ناک خاک آلود ہو، تین مرتبہ یہ فرمایا۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم کس کی ؟ تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو اپنے والدین کو یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پا لے اور پھر بھی جنت میں نہ جاسکے۔ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب رغم من أدرك أبویه أو أحدهما...، حدیث:۲۵۵۱۔) صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ہی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کو مشرکہ ماں سے بھی حسن سلوک کا حکم دیا۔ ( صحیح بخاري، کتاب الأدب، باب صلة المرأة أمهاولها زوج، حدیث:۵۹۷۹۔ صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب فضل النفقة والصدقة علی الأقربین، حدیث:۱۰۰۳۔ صحیح بخاری ومسلم میں ہی روایت ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمُ عَلَیْکُمْ عُقُوْقَ الْاُ مَّهَاتِ‘‘ (صحیح بخاري، کتاب الأدب، باب عقوق الوالدین من الکبائر، حدیث:۵۹۷۵۔ صحیح مسلم، کتاب الأقضیة، باب النهي عن کثره المسائل من غیر حاجة، حدیث:۱۳؍۵۹۳۔)کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر اپنی ماؤں کی نافرمانی حرام قرار دی ہے۔ ۵: قَوْلُ الزُّ وْرِ : چھوٹی بات، زُوْر جھوٹ اور باطل کو کہا جاتا ہے۔ راوی حدیث فرماتے ہیں کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہی کلمہ فرمانے لگے یہاں تک کہ ہم نے کہا: کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو جائیں۔ تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ ہو یا کوئی زیادہ سخت اور شدت والا حکم نہ نازل ہو جائے۔ جھوٹ بھی کبائر میں سے ایک ہے۔ صحیح بخاری (صحیح بخاري، کتاب الأدب، باب عقوق الوالدین من الکبائر، حدیث:۵۹۷۶، ۵۹۷۷۔)میں قَوْلُ الزُّوْرِ کے بجائے شَهَادَةُ الزُّوْرِ کے الفاظ ہیں ایک دوسری روایت میں یَمِیْنِ غُمُوْس (صحیح بخاري، کتاب الإیمان والنذور، باب الیمین الغموس، حدیث:۶۶۷۵۔)کو کبائر میں شامل کیا گیا ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چار علامتیں منافق کی ہیں۔ جس میں یہ ہوں وہ خالص منافق ہے، اور جس میں ان میں سے ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، جب امانت دار سمجھاجائے تو وہ خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے، جب کسی سے جھگڑے تو گالیاں دے۔ ‘‘(صحیح بخاري، کتاب الإیمان، باب علامات المنافق، حدیث:۳۴۔ صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب خصال المنافق، حدیث:۵۸۔) صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((عَلَیْکُمْ بِالِصّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ یَهْدِیْ إِلیٰ الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ یَهْدِیْ إِلیٰ الْجَنَّةِ وَمَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَصْدُقُ وَیَتَحَرَّی للِصِّدْقِ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدْاللّٰهِ صَدِّیْقًا، وَإِیَّاکُمْ وَالْکِذْبَ فَإِنَّ الْکِذْبَ یَهْدِیْ إِلیٰ الْفُجُوْرِ وَإِنَّ الْفُجُوْرَ یَهْدِیْ إِلیٰ النَّارِ وَمَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَکْذِبُ وَیَتَحَرَّی لِلْکذِْبِ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَ اللّٰهِ کَذَّ ابًا))(صحیح بخاري، کتاب الأدب،باب قول اللّٰه تعالی﴿یاأیها الذین آمنوا اتقوا اللّٰه...﴾، حدیث:۶۰۹۴۔ صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب قبح الکذب وحسن الصدق، حدیث:۱۰۵؍۲۶۰۷ واللفظ له۔) ’’سچائی کو اپنے اوپر لازم کر لو کہ سچائی نیکی کی طرف راہنمائی کرتی ہے، اور نیکی جنت کی طرف راہنمائی کرتی ہے، انسان ہمیشہ سچ بولتا ہے اور سچ کو تلاش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدیق کہلاتا ہے۔ اور اپنے آپ کو جھوٹ سے بچاؤ کہ جھوٹ گناہ کی طرف پہنچاتا ہے، اور گناہ آگ کی طرف، انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کو تلاش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ جھوٹا لکھا جاتا ہے۔‘‘ سنن ترمذي ، سنن ابی داؤد اور سنن دارمی میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس شخص کے لیے ویل ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے، اس کے لیے ہلاکت ہو، ہلاکت ہو۔‘‘( سنن أبي داود، کتاب الأدب، باب التشدید في الکذب، حدیث:۴۹۹۰۔ سنن ترمذي (۲۳۱۵)۔ سنن الدارمي (۲۷۰۵)۔) اللہ تعالیٰ ہمیں تمام کبیرہ گناہوں سے محفوظ رکھے۔