كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي تَكَأَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ الْبَغْدَادِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنِ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: ((رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ عَلَى يَسَارِهِ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تکیہ مبارک کابیان
’’سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بائیں جانب پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ ‘‘
تشریح :
’’بائیں جا نب تکیہ پر ٹیک لگائے دیکھا‘‘ یہ امر اتفاقی ہے، کوئی تخصیص نہیں بائیں جانب ہویا دائیں، دونوں طرح تکیہ پر ٹیک لگانا درست اور جائز ہے علامہ ابن قیم جوز یہ رحمہ اللہ نے ’’زاد المعاد‘‘ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نقل فرمایا ہے: ’’وَکَانَ یَتَّکِیُٔ عَلَی الْوِسَادَةِ وَرُبَّمَا اِتَّکَأَ عَلٰی یَسَارِهِ وَرُبَّمَا اِتَّکَأَ عَلٰی یَمِیْنِهِ وَکَانَ إِذَا احْتَاجَ فِي خُرُوْجِهِِ تَوَکَّأَ عَلَی بَعْضِ أَصْحَابِهِ مِنَ الضَّعْفِ‘‘ (زاد المعاد (ص:۶۶))کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ پر ٹیک لگاتے اور کبھی بائیں جانب اور کبھی دائیں جانب پر تکیہ لگا کر بیٹھتے، اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکلنے کے لیے بیماری کی وجہ سے اپنے کسی ساتھی پر ٹیک لگائی۔
فوائد:
٭ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ٹیک لگانا درست ہے۔
٭ دائیں جانب کے علاوہ بائیں جانب پر ٹیک لگانا درست ہے۔
٭ گھر میں تکیے وغیرہ رکھنا فضول خرچی اور اسراف میں نہیں آتا۔
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے۔ سنن أبي داود، کتاب اللباس، باب في الفرش (۴؍۴۱۴۳)، سنن ترمذي ، أبواب الأدب، باب في الإتکا ء (۵؍۲۷۷۰) وقال: حدیث غریب، مسند أحمد بن حنبل (۵؍۸۶، ۸۷) أخلاق النبي صلى الله عليه وسلم لأبي الشیخ (ص : ۲۷۰)
’’بائیں جا نب تکیہ پر ٹیک لگائے دیکھا‘‘ یہ امر اتفاقی ہے، کوئی تخصیص نہیں بائیں جانب ہویا دائیں، دونوں طرح تکیہ پر ٹیک لگانا درست اور جائز ہے علامہ ابن قیم جوز یہ رحمہ اللہ نے ’’زاد المعاد‘‘ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نقل فرمایا ہے: ’’وَکَانَ یَتَّکِیُٔ عَلَی الْوِسَادَةِ وَرُبَّمَا اِتَّکَأَ عَلٰی یَسَارِهِ وَرُبَّمَا اِتَّکَأَ عَلٰی یَمِیْنِهِ وَکَانَ إِذَا احْتَاجَ فِي خُرُوْجِهِِ تَوَکَّأَ عَلَی بَعْضِ أَصْحَابِهِ مِنَ الضَّعْفِ‘‘ (زاد المعاد (ص:۶۶))کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ پر ٹیک لگاتے اور کبھی بائیں جانب اور کبھی دائیں جانب پر تکیہ لگا کر بیٹھتے، اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکلنے کے لیے بیماری کی وجہ سے اپنے کسی ساتھی پر ٹیک لگائی۔
فوائد:
٭ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ٹیک لگانا درست ہے۔
٭ دائیں جانب کے علاوہ بائیں جانب پر ٹیک لگانا درست ہے۔
٭ گھر میں تکیے وغیرہ رکھنا فضول خرچی اور اسراف میں نہیں آتا۔