شمائل ترمذی - حدیث 124

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي جِلْسَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ، ((أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَلْقِيًا فِي الْمَسْجِدِ وَاضِعًا إِحْدَى رِجْلَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 124

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھنے کی کیفیت ’’ عبادبن تمیم اپنے چچا (عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ )سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چت لیٹے ہوئے تھے اور اپنے ایک پاؤں کو دوسرے پر رکھے ہوئے تھے۔ ‘‘
تشریح : عورتوں اور مردوں کا مسجد میں آرام کرنا ؟ یہ حدیث چت لیٹنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے جب کہ صحیح مسلم شریف کی ایک حدیث میں چت لیٹنے سے منع کیا گیا ہے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لَا یَسْتَلْقِیَنَّ أَحَدُ کُمْ ثُمْ یَضَعُ إِحْدٰی رِجْلَیْهِ عَلَی الْأُ خْرٰی‘‘ (صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب النهي عن اشتمال الصماء، حدیث:۷۴؍۲۰۹۹۔)یعنی تم میں سے کوئی بھی پیٹھ کے بل نہ لیٹے کہ پھر اپنی ایک ٹانگ کو دوسری پر رکھے۔ امام خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں : اصل میں لیٹنے کا جواز ہے پھر یہ حدیث یا تو منسوخ ہو گی یا اس کی ممانعت کی کوئی وجہ ہو گی مثلاً پر دہ کھل جانے کا خدشہ ہو تو اس ہیئت میں لیٹنا جائز نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس طرح لیٹنا صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے کہ یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جائز تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ لیٹنا دوطرح کا ہے ایک یہ کہ چت لیٹ کر ٹانگیں لمبی کر کے ایک کو دوسری پر رکھنا۔ اس طرح پردہ نہیں کھلتا، بلکہ کپڑا کھلنے کا اندیشہ ہی نہیں ہو تا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ چت لیٹ کر ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں کا گھٹنا کھڑا کر کے اس پر رکھنا، یہ منع ہے کیونکہ اس طرح لیٹنے سے لنگی یا چادر پہننے کی صورت میں ستر کھل جانے کا احتما ل ہو تا ہے۔ اور حدیث الباب میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا ہواتھا اس کی صورت یہ ہے کہ دونوں پاؤں کو پھیلا کہ ایک پاؤں دوسرے پر کھڑا کیا جائے۔ ظاہر ہے اس صورت میں ستر نہیں کھلے گا اس لیے یہ صورت جائز ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : نسخ کا دعوی کرنے سے تاویل کرنا بہتر ہے، کیونکہ نسخ کا مطلق گمان ہی قابل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح دعویٔ تخصیص بھی محض احتمال سے ثابت نہیں ہوسکتا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی بعض اصحاب رسول سے ایسا کرنا ثابت ہے جبکہ کسی دوسرے نے اس پر نکیر نہیں کی۔ (فتح الباري (۲؍۱۱۴)۔ اس حدیث سے مسجد میں لیٹنے اور آرام کرنے کا جواز ظاہر ہوتا ہے۔ بعض لوگ اس کو مسجد کے آداب کے خلاف کہتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں ہے بلکہ مسجد میں آرام کی غرض سے لیٹا اور سویا جاسکتا ہے۔ صحیح بخاری میں امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے بَا بُ نَوْ مِ الْمَرْ أَةِ فِی الْمَسْجِدِ اور بَابُ نَوْ مِ الرِّجَالِ فِی الْمَسْجِدِ کے عنوان سے کئی احادیث بیان کیں ہیں، مثلا ً ایک عورت کا واقعہ بیان کیا ہے جو مسلمان ہوئی تھی اور اس کا خیمہ اور رہائش مسجد نبوی میں تھا۔( صحیح بخاري، کتاب الصلاة، باب نوم المرأة في المسجد، حدیث:۴۳۹۔) اس طرح اصحاب صفہ رضی الله عنہم کا ذکر کیا ہے جن کا رہن سہن مسجد نبوی میں ہی تھا۔ اسی طرح بَا بُ الْقَیْلُوْلَةِ فِی الْمَسْجِدِ میں حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ سیّد تنا فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نارا ض ہو کر مسجد میں جا کر لیٹ گئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں جا کر سیدنا علی کو اٹھا یا۔ (صحیح بخاري، کتاب الاستئذان، باب القائلة في المسجد، حدیث:۶۲۸۰۔) بعض کہتے ہیں کہ یہ حدیث بَا بُ مَا جَاءَ فِيْ جِلْسَةِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ کے موافق نہیں کیونکہ اس میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیٹنے کا ذکر ہے۔ حالانکہ اس باب کے ساتھ یہ حدیث پوری مناسبت رکھی ہے اس لیے کہ اس میں تمام کیفیات پر بیٹھنے کے جواز کی دلیل پائی جاتی ہے، کیونکہ چت لیٹنا، بیٹھنے سے فروتر ہے لہٰذا جب چت لیٹنا جائز ہوا تو تمام کیفیات پر بیٹھنا بالاولی جائز ہوا۔ واللہ اعلم۔
تخریج : صحیح بخاری،کتاب الاستیذان، باب الاستلقاء (۱۱؍۶۲۸۷)، صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب النهي عن اشتمال الصماء والاحتباء في ثوب واحد (۳؍۸۵ برقم:۱۶۶۲)، سنن ترمذي ، أبواب الأدب (۵؍۲۷۶۵) وقال: حدیث حسن صحیح، سنن نسائي ، کتاب المساجد (۲؍۵۰)، سنن أبي داود، کتاب الأدب (۴؍۴۸۶۶)، سنن دارمي، کتاب الاستیئذان (۲؍۲۶۵۲) مؤطا امام مالك (۱؍۸۷ برقم:۱۲۷) عورتوں اور مردوں کا مسجد میں آرام کرنا ؟ یہ حدیث چت لیٹنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے جب کہ صحیح مسلم شریف کی ایک حدیث میں چت لیٹنے سے منع کیا گیا ہے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لَا یَسْتَلْقِیَنَّ أَحَدُ کُمْ ثُمْ یَضَعُ إِحْدٰی رِجْلَیْهِ عَلَی الْأُ خْرٰی‘‘ (صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب النهي عن اشتمال الصماء، حدیث:۷۴؍۲۰۹۹۔)یعنی تم میں سے کوئی بھی پیٹھ کے بل نہ لیٹے کہ پھر اپنی ایک ٹانگ کو دوسری پر رکھے۔ امام خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں : اصل میں لیٹنے کا جواز ہے پھر یہ حدیث یا تو منسوخ ہو گی یا اس کی ممانعت کی کوئی وجہ ہو گی مثلاً پر دہ کھل جانے کا خدشہ ہو تو اس ہیئت میں لیٹنا جائز نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس طرح لیٹنا صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے کہ یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جائز تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ لیٹنا دوطرح کا ہے ایک یہ کہ چت لیٹ کر ٹانگیں لمبی کر کے ایک کو دوسری پر رکھنا۔ اس طرح پردہ نہیں کھلتا، بلکہ کپڑا کھلنے کا اندیشہ ہی نہیں ہو تا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ چت لیٹ کر ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں کا گھٹنا کھڑا کر کے اس پر رکھنا، یہ منع ہے کیونکہ اس طرح لیٹنے سے لنگی یا چادر پہننے کی صورت میں ستر کھل جانے کا احتما ل ہو تا ہے۔ اور حدیث الباب میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا ہواتھا اس کی صورت یہ ہے کہ دونوں پاؤں کو پھیلا کہ ایک پاؤں دوسرے پر کھڑا کیا جائے۔ ظاہر ہے اس صورت میں ستر نہیں کھلے گا اس لیے یہ صورت جائز ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : نسخ کا دعوی کرنے سے تاویل کرنا بہتر ہے، کیونکہ نسخ کا مطلق گمان ہی قابل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح دعویٔ تخصیص بھی محض احتمال سے ثابت نہیں ہوسکتا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی بعض اصحاب رسول سے ایسا کرنا ثابت ہے جبکہ کسی دوسرے نے اس پر نکیر نہیں کی۔ (فتح الباري (۲؍۱۱۴)۔ اس حدیث سے مسجد میں لیٹنے اور آرام کرنے کا جواز ظاہر ہوتا ہے۔ بعض لوگ اس کو مسجد کے آداب کے خلاف کہتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں ہے بلکہ مسجد میں آرام کی غرض سے لیٹا اور سویا جاسکتا ہے۔ صحیح بخاری میں امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے بَا بُ نَوْ مِ الْمَرْ أَةِ فِی الْمَسْجِدِ اور بَابُ نَوْ مِ الرِّجَالِ فِی الْمَسْجِدِ کے عنوان سے کئی احادیث بیان کیں ہیں، مثلا ً ایک عورت کا واقعہ بیان کیا ہے جو مسلمان ہوئی تھی اور اس کا خیمہ اور رہائش مسجد نبوی میں تھا۔( صحیح بخاري، کتاب الصلاة، باب نوم المرأة في المسجد، حدیث:۴۳۹۔) اس طرح اصحاب صفہ رضی الله عنہم کا ذکر کیا ہے جن کا رہن سہن مسجد نبوی میں ہی تھا۔ اسی طرح بَا بُ الْقَیْلُوْلَةِ فِی الْمَسْجِدِ میں حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ سیّد تنا فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نارا ض ہو کر مسجد میں جا کر لیٹ گئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں جا کر سیدنا علی کو اٹھا یا۔ (صحیح بخاري، کتاب الاستئذان، باب القائلة في المسجد، حدیث:۶۲۸۰۔) بعض کہتے ہیں کہ یہ حدیث بَا بُ مَا جَاءَ فِيْ جِلْسَةِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ کے موافق نہیں کیونکہ اس میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیٹنے کا ذکر ہے۔ حالانکہ اس باب کے ساتھ یہ حدیث پوری مناسبت رکھی ہے اس لیے کہ اس میں تمام کیفیات پر بیٹھنے کے جواز کی دلیل پائی جاتی ہے، کیونکہ چت لیٹنا، بیٹھنے سے فروتر ہے لہٰذا جب چت لیٹنا جائز ہوا تو تمام کیفیات پر بیٹھنا بالاولی جائز ہوا۔ واللہ اعلم۔