شمائل ترمذی - حدیث 123

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي جِلْسَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ،أَنْبَأَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، أَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ جَدَّتَيْهِ، عَنْ قَيْلَةَ بِنْتِ مَخْرَمَةَ، أَنَّهَا رَأَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَهُوَ قَاعِدٌ الْقُرْفُصَاءَ قَالَتْ: ((فَلَمَّا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَخَشِّعَ فِي الْجِلْسَةِ أُرْعِدْتُ مِنَ الْفَرَقِ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 123

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھنے کی کیفیت ’’سیدہ قیلۃ بنت مخرمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں گوٹ مار کر بیٹھے ہوئے دیکھا، کہتی ہیں : کہ میں نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خشوع والے بیٹھنے کے انداز میں دیکھا تو ڈر سے کانپنے لگی۔ ‘‘
تشریح : عام آدمی کی طرز پر بیٹھنا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم گوٹ مار کر بیٹھے تھے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عاجزانہ حالت تھی اور یہ ایسا بیٹھنا ہے جس میں فقرو مسکنت، احتیاج اور عبدیت کا اظہار تھا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’اَجْلِسُ کَمَا یَجْلِسُ الْعَبْدُ وَاٰکُلُ کَمَا یَا کُلُ الْعَبْدُ‘‘ (طبقات ابن سعد (۱؍۳۸۱)۔ مسند أبي یعلیٰ)کہ میں عام آدمی کی طرح بیٹھتا ہوں اور عام آدمی کی طرح کھاتا ہوں، مراد یہ کہ متکبرین کی طرح میرا مزاج نہیں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو متمّر دین، سرکشوں، جبارین اور متکبرین کی ھیئتہ جلوس سے نفرت تھی۔ حدیث الباب کا تکملہ : اس حدیث کا کچھ حصہ امام ترمذی نے نقل نہیں کیا۔ میرک اور ملا علی قاری رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے وہ یہ کہ حضرت قیلہ رضی اللہ عنہا کی یہ حالتِ خوف دیکھ کر حاضرین مجلس میں سے کسی نے کہا: یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ اِرْعَدَتِ الْمِسْکِیْنَةُ یہ مسکینہ تو خوف زدہ ہو کر کانپنے لگی ہے۔ خود حضرت قیلۃ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر پیچھے تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف رخ موڑے بغیر ہی ارشاد فرمایا: ’’یَا مِسْکِیْنَةُ عَلَیْكِ السَّکِیْنَة‘‘ اے مسکینہ سکون اختیار کر۔ فرماتی ہیں بس اتنا فرمانا تھا کہ ’’اَذْهَبَ اللّٰهُ مَادَخَلَ فِيْ قَلْبِيْ مِنَ الرُّعْبِ (معجم کبیر طبراني (۲۵؍۴۴۶)۔ طبقات ابن سعد (۱؍۳۱۷)۔)سارا خوف ودہشت اور رعب ولرزہ جو مجھ پر طاری تھا اللہ تعالیٰ نے کافور کر دیا۔ سیدنا ابو مسعود عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے گفتگو کی تووہ کانپنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’هَوِّنْ عَلَیْكَ، فَإِنِيّ لَسْتُ بِمَلِكٍ إِنَّمَا أَنَا ابْنُ اِمْرَأَةٍ مِنْ قُرَیْشٍ تَا کُلُ الْقَدِیْدَ (سنن ابن ماجة، کتاب الأطعمة، باب القدید، حدیث:۳۳۱۲۔ مستدرك حاکم (۳؍۴۷۔۴۸)۔)کہ اپنی ذات پر نرمی اور سکون اختیارکرو میں کوئی بادشاہ نہیں، میں تو قریش کی ایک ایسی عورت کا (یتیم )بیٹا ہوں جو ( غربت ومسکنت کی وجہ سے ) خشک کیا ہوا گوشت کھاتی تھی۔
تخریج : یہ حدیث اپنے شواہد کی بنا پر حسن درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔سنن أبي داود،کتاب الأدب (۴؍۴۸۴۷) الأدب المفرد للإمام البخاري (۲؍۱۱۷۸) سنن ترمذي ، کتاب الأدب (۵؍۲۸۱۴) وَقَالَ اَبُوْعِیْسٰی حَدِیْثُ قَیْلَةَ لَا نَعْرِ فُهُ إلاَّ مِنْ حَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ حَسَّان، جبکہ عبداللہ بن حسان مجھول ہے۔ اس حدیث کا ایک شاہد ہے جسے ابوالشیخ رحمہ اللہ نے اخلاق النبی صلى الله عليه وسلم ( ص: ۲۶۹) میں نقل کیا ہے لیکن اس میں بھی ضعف ہے، البتہ اپنے شواہد کی وجہ سے یہ روایت درجہ حسن کو پہنچ جاتی ہے۔ عام آدمی کی طرز پر بیٹھنا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم گوٹ مار کر بیٹھے تھے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عاجزانہ حالت تھی اور یہ ایسا بیٹھنا ہے جس میں فقرو مسکنت، احتیاج اور عبدیت کا اظہار تھا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’اَجْلِسُ کَمَا یَجْلِسُ الْعَبْدُ وَاٰکُلُ کَمَا یَا کُلُ الْعَبْدُ‘‘ (طبقات ابن سعد (۱؍۳۸۱)۔ مسند أبي یعلیٰ)کہ میں عام آدمی کی طرح بیٹھتا ہوں اور عام آدمی کی طرح کھاتا ہوں، مراد یہ کہ متکبرین کی طرح میرا مزاج نہیں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو متمّر دین، سرکشوں، جبارین اور متکبرین کی ھیئتہ جلوس سے نفرت تھی۔ حدیث الباب کا تکملہ : اس حدیث کا کچھ حصہ امام ترمذی نے نقل نہیں کیا۔ میرک اور ملا علی قاری رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے وہ یہ کہ حضرت قیلہ رضی اللہ عنہا کی یہ حالتِ خوف دیکھ کر حاضرین مجلس میں سے کسی نے کہا: یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ اِرْعَدَتِ الْمِسْکِیْنَةُ یہ مسکینہ تو خوف زدہ ہو کر کانپنے لگی ہے۔ خود حضرت قیلۃ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر پیچھے تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف رخ موڑے بغیر ہی ارشاد فرمایا: ’’یَا مِسْکِیْنَةُ عَلَیْكِ السَّکِیْنَة‘‘ اے مسکینہ سکون اختیار کر۔ فرماتی ہیں بس اتنا فرمانا تھا کہ ’’اَذْهَبَ اللّٰهُ مَادَخَلَ فِيْ قَلْبِيْ مِنَ الرُّعْبِ (معجم کبیر طبراني (۲۵؍۴۴۶)۔ طبقات ابن سعد (۱؍۳۱۷)۔)سارا خوف ودہشت اور رعب ولرزہ جو مجھ پر طاری تھا اللہ تعالیٰ نے کافور کر دیا۔ سیدنا ابو مسعود عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے گفتگو کی تووہ کانپنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’هَوِّنْ عَلَیْكَ، فَإِنِيّ لَسْتُ بِمَلِكٍ إِنَّمَا أَنَا ابْنُ اِمْرَأَةٍ مِنْ قُرَیْشٍ تَا کُلُ الْقَدِیْدَ (سنن ابن ماجة، کتاب الأطعمة، باب القدید، حدیث:۳۳۱۲۔ مستدرك حاکم (۳؍۴۷۔۴۸)۔)کہ اپنی ذات پر نرمی اور سکون اختیارکرو میں کوئی بادشاہ نہیں، میں تو قریش کی ایک ایسی عورت کا (یتیم )بیٹا ہوں جو ( غربت ومسکنت کی وجہ سے ) خشک کیا ہوا گوشت کھاتی تھی۔