شمائل ترمذی - حدیث 119

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي مِشْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي يُونُسَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: ((وَلَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَحْسَنَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّ الشَّمْسَ تَجْرِي فِي وَجْهِهِ، وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَسْرَعَ فِي مِشْيَتِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّمَا الْأَرْضُ تُطْوَى لَهُ إِنَّا لَنُجْهِدُ أَنْفُسَنَا وَإِنَّهُ لَغَيْرُ مُكْتَرِثٍ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 119

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار مبارک کا بیان ’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوبصورت کوئی چیز نہیں دیکھی گویا کہ سورج آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے مبارک میں تیر رہا ہو تا تھا، اور چلنے میں آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم سے تیز میں نے کوئی نہیں دیکھا گویا کہ زمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لپیٹ دی جاتی تھی، ہم آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے میں پوری محنت ومشقت صرف کرتے، جبکہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم رفتار میں کوئی تکلف نہیں فرماتے تھے۔‘‘
تشریح : ٭ گویا کہ سورج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے مبارک میں تیر رہا ہے، یعنی جس طرح آسمان میں سورج اپنی ضوء فشانی بکھیر رہا ہوتا ہے اسی طرح کمالِ حسن و جمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور میں محسوس ہوتا، تشبیہ بالعکس مبالغہ کے لیے بیان کی گئی ہے۔ معجم طبرانی اور سنن دارمی میں ہے کہ لَوْ رَأَ یْتَهُ لَرَأَیْتَ الشَّمْسَ طَالِعَةً (معجم کبیر طبراني (۱۸؍۱۲ ح ۲۰۱۵۹)۔ سنن الدارمي (۶۱)۔) اگر تم رخِ محبوب ِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے تو ایسے تھا جیسا کہ سورج طلوع ہو تے وقت اپنی طباشیر بکھیرتا ہے۔ ٭ ہم تھک جاتے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلتے ہوئے ہم اپنے آپ کو طاقت سے زیادہ تھکا دیتے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی پروا بھی نہ ہوتی گویا آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرعت آ پ کی چال میں کمالِ قوت کی وجہ سے ہوتی، اس میں تکلیف ومشقت بالکل محسوس نہ کرتے تھے۔
تخریج : حدیث اس سند کے ساتھ ضعیف ہے کیونکہ اس میں راوی ابن لھیعہ اختلاط اور سوء حفظ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اس سند کے ساتھ اس روایت کو امام تر مذی رحمہ اللہ نے سنن ترمذي ، کتاب المناقب (۵؍۳۶۴۸) میں ذکر کرکے فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ایسے ہی امام احمد رحمہ اللہ نے مسند میں (۲؍۳۵۰،۳۸۰) اور ابوالشیخ رحمہ اللہ نے اخلاق النبی (۲۷۰) میں نقل کیا ہے لیکن ابن لھیعۃ کی متابعت عمر وبن الحارث نے کی ہے جیسا کہ طبقات ابن سعد (۱؍۴۱۵) میں ہے، اس لیے یہ روایت حسن لغیرہ کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔ والله أعلم ٭ گویا کہ سورج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے مبارک میں تیر رہا ہے، یعنی جس طرح آسمان میں سورج اپنی ضوء فشانی بکھیر رہا ہوتا ہے اسی طرح کمالِ حسن و جمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور میں محسوس ہوتا، تشبیہ بالعکس مبالغہ کے لیے بیان کی گئی ہے۔ معجم طبرانی اور سنن دارمی میں ہے کہ لَوْ رَأَ یْتَهُ لَرَأَیْتَ الشَّمْسَ طَالِعَةً (معجم کبیر طبراني (۱۸؍۱۲ ح ۲۰۱۵۹)۔ سنن الدارمي (۶۱)۔) اگر تم رخِ محبوب ِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے تو ایسے تھا جیسا کہ سورج طلوع ہو تے وقت اپنی طباشیر بکھیرتا ہے۔ ٭ ہم تھک جاتے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلتے ہوئے ہم اپنے آپ کو طاقت سے زیادہ تھکا دیتے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی پروا بھی نہ ہوتی گویا آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرعت آ پ کی چال میں کمالِ قوت کی وجہ سے ہوتی، اس میں تکلیف ومشقت بالکل محسوس نہ کرتے تھے۔