كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِزَارِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنِ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، يَأْتَزِرُ إِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ، وَقَالَ: ((هَكَذَا كَانَتْ إِزْرَةُ صَاحِبِي)) ، يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لنگی مبارک کا بیان
’’سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اپنی نصف پنڈلی تک ازاررکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہی ہیئت میرے صاحب یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ازار کی تھی۔‘‘
تشریح :
٭ گذشتہ روایت کی طرح اس حدیث میں بھی نصف پنڈلی تک تہبند باندھنے کا ذکر ہے افضل عمل یہی ہے۔ تاہم اگلی روایت میں آرہا ہے کہ اگر کسی شخص کو یہ طریقہ پسند نہ ہو او ر وہ اپنا تہبند نیچے لٹکانا چاہے تو اس کے ٹخنے بہرحال برہنہ رہنے چائیں، یعنی ازار کسی حالت میں بھی ٹخنوں سے نیچے نہیں لٹکانا چاہیے کہ ایسا کرنے والا سخت گنہگار ہوگا، اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف ( نظر رحمت سے ) دیکھیں گے بھی نہیں۔
٭ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ازار بھی اسی طرح ہو تا تھا، گویا حضرات صحابہ کرام عموما ً اور خلفائے راشد ین خصوصاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر کام اور ہر ہیئت میں پہلے خود عمل کے ذریعہ اتباع کرتے، اور پھر دوسروں کو بھی بتاتے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرز عمل تھا۔ حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کا یہی اہتمام سنت، سنت کے باقی رہنے کا باعث ہے کہ آج پڑھے لکھے لوگو ں کے علاوہ ان پڑھ لوگ بھی صلحاء و عاملین کے طرزِ زندگی کواپنا کر شاد کام ہو تے ہیں۔
تخریج :
یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے۔ أخلاق البني صلى الله عليه وسلم لأبي الشیخ (ص : ۱۱۲) مذکورہ سند میں راوی موسی بن عبیدۃ ضعیف ہے البتہ روایت کا مرفوع حصہ دیگر شواہد کی وجہ سے صحیح ہے۔ انظر المشکوٰة (۴۳۳۱) وصَحَّحَهُ الألباني فی المشکوٰة ومختصر الشمائل۔
٭ گذشتہ روایت کی طرح اس حدیث میں بھی نصف پنڈلی تک تہبند باندھنے کا ذکر ہے افضل عمل یہی ہے۔ تاہم اگلی روایت میں آرہا ہے کہ اگر کسی شخص کو یہ طریقہ پسند نہ ہو او ر وہ اپنا تہبند نیچے لٹکانا چاہے تو اس کے ٹخنے بہرحال برہنہ رہنے چائیں، یعنی ازار کسی حالت میں بھی ٹخنوں سے نیچے نہیں لٹکانا چاہیے کہ ایسا کرنے والا سخت گنہگار ہوگا، اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف ( نظر رحمت سے ) دیکھیں گے بھی نہیں۔
٭ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ازار بھی اسی طرح ہو تا تھا، گویا حضرات صحابہ کرام عموما ً اور خلفائے راشد ین خصوصاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر کام اور ہر ہیئت میں پہلے خود عمل کے ذریعہ اتباع کرتے، اور پھر دوسروں کو بھی بتاتے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرز عمل تھا۔ حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کا یہی اہتمام سنت، سنت کے باقی رہنے کا باعث ہے کہ آج پڑھے لکھے لوگو ں کے علاوہ ان پڑھ لوگ بھی صلحاء و عاملین کے طرزِ زندگی کواپنا کر شاد کام ہو تے ہیں۔