كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِزَارِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ سُلَيْمٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَمَّتِي، تُحَدِّثُ عَنْ عَمِّهَا قَالَ: بَيْنَا أَنَا أَمشِي بِالْمَدِينَةِ، إِذَا إِنْسَانٌ خَلْفِي يَقُولُ: ((ارْفَعْ إِزَارَكَ، فَإِنَّهُ أَتْقَى وَأَبْقَى)) فَإِذَا هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا هِيَ بُرْدَةٌ مَلْحَاءُ قَالَ: ((أَمَا لَكَ فِيَّ أُسْوَةٌ؟)) فَنَظَرْتُ فَإِذَا إِزَارُهُ إِلَى نِصْفِ سَاقَيْهِ
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لنگی مبارک کا بیان
’’اشعث بن سُلیم کہتے ہیں میں نے اپنی پھوپھی سے سنا وہ اپنے چچا سے بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے فرمایا :میں ایک دفعہ مدینہ منورہ میں چل رہا تھا کہ ایک شخص میرے پیچھے یہ کہہ رہا تھا: ’’اپنی تہبند اوپر کر و، کیونکہ یہ چیز ( میل کچیل سے بچانے والی ہے اور ( کپڑے کو دیر تک ) باقی رکھنے والی ہے۔‘‘ میں نے کہنے والے کی طرف متوجہ ہو کر دیکھا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ معمولی سی دھاری دار چادر ہے تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میرا عمل تیرے لیے نمونہ نہیں ہے؟‘‘ میں نے دیکھا تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہبند آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلیوں کے نصف تک تھی۔‘‘
تشریح :
نصف پنڈلی تک کپڑے کے فوائد وثمرات :
٭ ’’یہ بچانے والی اور باقی رکھنے والی ہے‘‘ یعنی کپڑے کو اوپر اٹھا کر رکھنا، یہ چیز کو میل کچیل سے اور دل کو تکبر سے بچانے والی ہے۔ اور دوسرا فائدہ بھی بتلادیا کہ ایسا کرنے سے کپڑا دیر تک چلے گا کیونکہ زمین پر گھسیٹنے کی وجہ سے وہ جلدی پھٹ جائے گا۔ حدیث کے اس ٹکڑے سے معلوم ہو ا کہ دینی فوائد اوراُخروی مفاد کے تابع دنیوی فوائد ومفاد بھی ہوتے ہیں، اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اپنے کپڑوں کی حفاظت، صفائی اور دیکھ بھال پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ اس سے غفلت وسستی، اسراف اور تضییع مال سے بچا جا سکتا ہے۔
٭ ’’یہ تو معمولی سی چادر ہے‘‘ یعنی اس کے نیچے لٹک جانے سے غرور یا تکبر پیدا نہیں ہوتا، اور اگر خراب بھی ہو جائے تو یہ چادر کچھ قیمتی نہیں ہے۔ عرب لوگ ایسی چادر کو اپنی خاص مجالس ومحافل کے مواقع پر استعمال بھی نہیں کرتے ہیں کیونکہ یہ زینت کا کپڑا نہیں ہے۔ جیسا کہ علامہ بیجوری نے لکھا ہے کہ لَیْسَتْ مِنَ الثِّیَابِ الْفَاخِرَةِ یعنی یہ کپڑا کوئی قیمتی نہیں ہو تا۔
کیا میرا اسوۂ کافی نہیں ؟
٭ کیا میرے طرز عمل میں تیرے لیے نمونہ نہیں، مراد یہ ہے کہ جس طرح میں نے تہبند باندھ رکھا ہے کیا یہ طریقہ تمھیں پسند نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تم اپنے عمل کی توجیہات بیان کر رہے ہو اور جواز فعل کے لیے سند تلاش کر رہے ہو؟ ایسا حیلہ ہر گز مناسب نہیں ہے، بلکہ میری اتباع کی جائے اور خصوصی طور پر جب کہ اُخروی اور دنیاوی فوائد بھی حاصل ہو رہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کامل نمونہ ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنةٌ﴾(الأحزاب:۲۲) مزید فرمایا: ﴿مَنْ یُطْعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا﴾اور یہ بھی فرمایا کہ ﴿مَنْ یُطْعِ الرَّسُوْ لَ فَقَدْ اَطَا عَ اللّٰهَ﴾
ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا حرام ہے :
٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں انداز کیا تھا؟ صحابی رسول فرماتے ہیں : میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ازار نصف پنڈلیوں تک اونچا بندھا ہوا تھا۔ یہ انداز تقوی وپرہیز گاری اور عاجزی وانکساری کا مکمل نمونہ ہے، اور ٹخنوں سے نیچے تک تہبند لٹکا نا غرور وتکبر کی علامت ہے اور اس پر عذاب الٰہی کی بھی وعید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’مَا أَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الْإِ زَارِ فِیْ النَّارِ‘‘(صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب ما أسفل من الکعبین فهو في النار، حدیث:۵۷۸۷۔) کہ ٹخنوں سے نیچے جتنا ازار ہوگا وہ حصہ جہنم میں جائے گا۔ عبدالرحمان فرماتے ہیں کہ میں نے سیّدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے تہبند کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے فرمایا : تم نے اس بار ے میں خوب خبر رکھنے والے سے سوال کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’مسلمان کا تہبند نصف پنڈلی تک ہو نا چاہیے، اس سے نیچے ٹخنوں تک، لیکن ٹخنوں سے نیچے جتنا حصہ تہبند کا لٹکے گا وہ آگ میں جائے گا، اور جو شخص متکبر انہ کپڑے کو لٹکائے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف (نظر رحمت سے )نہیں دیکھیں گے۔‘‘( سنن أبي داود، کتاب اللباس، باب في قدر موضع الإزار، حدیث:۴۰۹۳۔ سنن ابن ماجة (۳۵۷۳)۔)
٭ ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا جیسے آج کل آسودہ حال اور دنیا دار لوگ کا اندازہے اسی طرح گذشتہ زمانے میں عرب کے آسودہ حال لوگ بھی کرتے، بلکہ ایسا کرنا معاشرے میں شرافت و وقار اور آسودہ حالی کی علامت سمجھا جاتا تھا، واقعہ حدیبیہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو اپنا سفیر بنا کر اہل مکہ کے پاس بھیجا۔ ان ایام میں آپ کچھ کمزور ونحیف اور زرد رنگ دکھائی دے رہے تھے۔ وہاں آ پ کے چچا زاد بھائیوں نے آپ کو گھیر لیا اور کہنے لگے: آپ تو اچھے خاصے خوبصو رت اور وجیہ نوجوان تھے، مدینہ جاکر آپ کو کیا ہو گیا ہے کہ آپ کمزور ہوگئے ہیں نیز تم نے یہ تہبند کیسے اوپر اٹھا رکھا ہے ؟ جبکہ یہاں مکہ میں ہمارے ساتھ رہتے ہوئے تو تم ہماری طرح باوقار طریقے سے تہبند باندھنے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’هٰکَذَا إِزَارَةُ صَاحِبِيْ‘‘ میں نے تہبند باندھنے کا یہ طریقہ اپنے صاحب یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے پر اختیار کیا ہے لہٰذا میں ان کے اسوہ حسنہ کو ترک نہیں کر سکتا۔
ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا عورتوں کے لیے ضروری ہے :
٭ ٹخنوں سے نیچے تہبند، ازار اور چادر لٹکانے کی وعید صرف مردوں کے حق میں ہے عورتیں اس میں شامل نہیں ہیں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ٹخنے چھپانے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے جب ازار لٹکانے کی وعید سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم کیا کہ عورتوں کے لیے اس بارے میں کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ کپڑے نیچے لٹکائیں، عورتوں کو قدم اور پاؤں تک چھپانا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، کتاب اللباس، باب في قدر الذیل، حدیث:۴۱۱۷۔ سنن نسائي (۵۳۴۰)۔)قاضی عیاضی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔
٭ حدیث الباب سے ثابت ہو تا ہے کہ کامل آدمی قول وعمل کو جامع ادر شامل ہو تا ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کو ازار اٹھانے کا حکم دیا تو خود اپنا ازار بھی اٹھایا ہوا تھا۔
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے مسند أحمد بن حنبل (۵؍۳۶۴) امام احمد بن حنبل نے اشعث کی پھوپھی کا نام رھم اور اس کے چچا کا نام عبیدۃ بن خلف ذکر کیا ہے۔ سنن الکبرٰی للنسائي (۵؍۴۸۴) أخلاق النبي صلى الله عليه وسلم لأبي الشیخ ( ص : ۱۱۲) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ الاصابة میں فرماتے ہیں : انہیں عبید بن خالد اور عبید بن خلف المحاربی بھی کہا جاتا ہے۔ نیز فرماتے ہیں : اشعث کی پھوپھی رھم بنت الاسود مجہولہ ہے۔
شمائل کی سند کے مطابق تو یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اشعث بن سلیم کی پھوپھی مجہولہ ہے لیکن شرید بن سوید کی روایت اس کی شاھد ہے جو صحیح سند سے مروی ہے اور اسے امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے (۴ ؍ ۳۹۰) شرید بن سوید فرماتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنا ازار لٹکائے جا رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے اس کی طرف گئے اور فرمایا اپنے ازار کو ا وپر اٹھاؤ، او ر اللہ تعالیٰ سے ڈرو ...۔
نصف پنڈلی تک کپڑے کے فوائد وثمرات :
٭ ’’یہ بچانے والی اور باقی رکھنے والی ہے‘‘ یعنی کپڑے کو اوپر اٹھا کر رکھنا، یہ چیز کو میل کچیل سے اور دل کو تکبر سے بچانے والی ہے۔ اور دوسرا فائدہ بھی بتلادیا کہ ایسا کرنے سے کپڑا دیر تک چلے گا کیونکہ زمین پر گھسیٹنے کی وجہ سے وہ جلدی پھٹ جائے گا۔ حدیث کے اس ٹکڑے سے معلوم ہو ا کہ دینی فوائد اوراُخروی مفاد کے تابع دنیوی فوائد ومفاد بھی ہوتے ہیں، اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اپنے کپڑوں کی حفاظت، صفائی اور دیکھ بھال پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ اس سے غفلت وسستی، اسراف اور تضییع مال سے بچا جا سکتا ہے۔
٭ ’’یہ تو معمولی سی چادر ہے‘‘ یعنی اس کے نیچے لٹک جانے سے غرور یا تکبر پیدا نہیں ہوتا، اور اگر خراب بھی ہو جائے تو یہ چادر کچھ قیمتی نہیں ہے۔ عرب لوگ ایسی چادر کو اپنی خاص مجالس ومحافل کے مواقع پر استعمال بھی نہیں کرتے ہیں کیونکہ یہ زینت کا کپڑا نہیں ہے۔ جیسا کہ علامہ بیجوری نے لکھا ہے کہ لَیْسَتْ مِنَ الثِّیَابِ الْفَاخِرَةِ یعنی یہ کپڑا کوئی قیمتی نہیں ہو تا۔
کیا میرا اسوۂ کافی نہیں ؟
٭ کیا میرے طرز عمل میں تیرے لیے نمونہ نہیں، مراد یہ ہے کہ جس طرح میں نے تہبند باندھ رکھا ہے کیا یہ طریقہ تمھیں پسند نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تم اپنے عمل کی توجیہات بیان کر رہے ہو اور جواز فعل کے لیے سند تلاش کر رہے ہو؟ ایسا حیلہ ہر گز مناسب نہیں ہے، بلکہ میری اتباع کی جائے اور خصوصی طور پر جب کہ اُخروی اور دنیاوی فوائد بھی حاصل ہو رہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کامل نمونہ ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنةٌ﴾(الأحزاب:۲۲) مزید فرمایا: ﴿مَنْ یُطْعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا﴾اور یہ بھی فرمایا کہ ﴿مَنْ یُطْعِ الرَّسُوْ لَ فَقَدْ اَطَا عَ اللّٰهَ﴾
ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا حرام ہے :
٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں انداز کیا تھا؟ صحابی رسول فرماتے ہیں : میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ازار نصف پنڈلیوں تک اونچا بندھا ہوا تھا۔ یہ انداز تقوی وپرہیز گاری اور عاجزی وانکساری کا مکمل نمونہ ہے، اور ٹخنوں سے نیچے تک تہبند لٹکا نا غرور وتکبر کی علامت ہے اور اس پر عذاب الٰہی کی بھی وعید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’مَا أَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الْإِ زَارِ فِیْ النَّارِ‘‘(صحیح بخاري، کتاب اللباس، باب ما أسفل من الکعبین فهو في النار، حدیث:۵۷۸۷۔) کہ ٹخنوں سے نیچے جتنا ازار ہوگا وہ حصہ جہنم میں جائے گا۔ عبدالرحمان فرماتے ہیں کہ میں نے سیّدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے تہبند کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے فرمایا : تم نے اس بار ے میں خوب خبر رکھنے والے سے سوال کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’مسلمان کا تہبند نصف پنڈلی تک ہو نا چاہیے، اس سے نیچے ٹخنوں تک، لیکن ٹخنوں سے نیچے جتنا حصہ تہبند کا لٹکے گا وہ آگ میں جائے گا، اور جو شخص متکبر انہ کپڑے کو لٹکائے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف (نظر رحمت سے )نہیں دیکھیں گے۔‘‘( سنن أبي داود، کتاب اللباس، باب في قدر موضع الإزار، حدیث:۴۰۹۳۔ سنن ابن ماجة (۳۵۷۳)۔)
٭ ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا جیسے آج کل آسودہ حال اور دنیا دار لوگ کا اندازہے اسی طرح گذشتہ زمانے میں عرب کے آسودہ حال لوگ بھی کرتے، بلکہ ایسا کرنا معاشرے میں شرافت و وقار اور آسودہ حالی کی علامت سمجھا جاتا تھا، واقعہ حدیبیہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو اپنا سفیر بنا کر اہل مکہ کے پاس بھیجا۔ ان ایام میں آپ کچھ کمزور ونحیف اور زرد رنگ دکھائی دے رہے تھے۔ وہاں آ پ کے چچا زاد بھائیوں نے آپ کو گھیر لیا اور کہنے لگے: آپ تو اچھے خاصے خوبصو رت اور وجیہ نوجوان تھے، مدینہ جاکر آپ کو کیا ہو گیا ہے کہ آپ کمزور ہوگئے ہیں نیز تم نے یہ تہبند کیسے اوپر اٹھا رکھا ہے ؟ جبکہ یہاں مکہ میں ہمارے ساتھ رہتے ہوئے تو تم ہماری طرح باوقار طریقے سے تہبند باندھنے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’هٰکَذَا إِزَارَةُ صَاحِبِيْ‘‘ میں نے تہبند باندھنے کا یہ طریقہ اپنے صاحب یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے پر اختیار کیا ہے لہٰذا میں ان کے اسوہ حسنہ کو ترک نہیں کر سکتا۔
ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا عورتوں کے لیے ضروری ہے :
٭ ٹخنوں سے نیچے تہبند، ازار اور چادر لٹکانے کی وعید صرف مردوں کے حق میں ہے عورتیں اس میں شامل نہیں ہیں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ٹخنے چھپانے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے جب ازار لٹکانے کی وعید سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم کیا کہ عورتوں کے لیے اس بارے میں کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ کپڑے نیچے لٹکائیں، عورتوں کو قدم اور پاؤں تک چھپانا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، کتاب اللباس، باب في قدر الذیل، حدیث:۴۱۱۷۔ سنن نسائي (۵۳۴۰)۔)قاضی عیاضی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔
٭ حدیث الباب سے ثابت ہو تا ہے کہ کامل آدمی قول وعمل کو جامع ادر شامل ہو تا ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کو ازار اٹھانے کا حکم دیا تو خود اپنا ازار بھی اٹھایا ہوا تھا۔