شمائل ترمذی - حدیث 11

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي خَلْقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، قَالَ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الرُّؤَاسِيُّ، عَنْ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ: أَكَانَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ السَّيْفِ؟ قَالَ: ((لَا، بَلْ مِثْلَ الْقَمَرِ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 11

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کا بیان ’’ ابواسحق کہتے ہیں ایک شخص نے سیّدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رُخِ انور تلوار کی طرح (چمکدار) تھا؟ انھوں نے فرمایا: نہیں، بلکہ چاند کی طرح (چمکدار) تھا۔ ‘‘
تشریح : سیّدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کو تلوار کے ساتھ تشبیہ دینے والے کی نفی اس لیے کی ہے کہ تلوار لمبی ہوتی ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک تو گول سا تھا۔ جو چاند کے مانند تھا، جیسا کہ صحیح مسلم میں سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ’’ مِثْلُ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ مُسْتَدِیْرًا ‘‘(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب إثبات خاتم النبوة وصفة، حدیث:۱۰۹؍۲۳۴۴۔) ’’سورج اور چاند کی طرح گول تھا۔ ‘‘ سورج سے مشابہت میں چمک دھمک اور چاند سے مشابہت میں خوبصورتی و عمدگی پائی جاتی ہے، لیکن ان سے تشبیہ میں استدارۃ (گولائی) نہیں پائی جاتی، اس لیے ’’ مُسْتَدِیْرًا ‘‘ کا لفظ الگ ذکر کردیا تاکہ یہ صفت بھی مشابہت میں سمجھی جائے، تو گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ انور حسن و گولائی میں چاند کی طرح تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ تلوار میں صرف چمک ہوتی ہے نورانیت نہیں ہوتی، بخلاف چاند کے کہ اس میں دونوں چیزیں ہیں۔ یاد رہے کہ یہ تشبیہ تو صرف تقریب کے لیے ہے ورنہ ایک چاند تو کیا! ہزاروں چاند بھی محبوبِ کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ناخن پا کے ادنیٰ حسن و جمال کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب المناقب، باب في صفة النبي صلی الله علیه وسلم ، حدیث نمبر: ۳۵۵۲۔ سنن ترمذي، کتاب المناقب، باب ماجاء في صفة النبي صلی الله علیه وسلم: ۳۶۳۶۔ سنن دارمي المقدمة، برقم: ۶۴۔ مسند أحمد بن حنبل: ۴؍ ۲۸۱۔ سیّدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کو تلوار کے ساتھ تشبیہ دینے والے کی نفی اس لیے کی ہے کہ تلوار لمبی ہوتی ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک تو گول سا تھا۔ جو چاند کے مانند تھا، جیسا کہ صحیح مسلم میں سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ’’ مِثْلُ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ مُسْتَدِیْرًا ‘‘(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب إثبات خاتم النبوة وصفة، حدیث:۱۰۹؍۲۳۴۴۔) ’’سورج اور چاند کی طرح گول تھا۔ ‘‘ سورج سے مشابہت میں چمک دھمک اور چاند سے مشابہت میں خوبصورتی و عمدگی پائی جاتی ہے، لیکن ان سے تشبیہ میں استدارۃ (گولائی) نہیں پائی جاتی، اس لیے ’’ مُسْتَدِیْرًا ‘‘ کا لفظ الگ ذکر کردیا تاکہ یہ صفت بھی مشابہت میں سمجھی جائے، تو گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ انور حسن و گولائی میں چاند کی طرح تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ تلوار میں صرف چمک ہوتی ہے نورانیت نہیں ہوتی، بخلاف چاند کے کہ اس میں دونوں چیزیں ہیں۔ یاد رہے کہ یہ تشبیہ تو صرف تقریب کے لیے ہے ورنہ ایک چاند تو کیا! ہزاروں چاند بھی محبوبِ کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ناخن پا کے ادنیٰ حسن و جمال کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔