شمائل ترمذی - حدیث 109

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ مِغْفَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ، وَعَلَى رَأْسِهِ الْمِغْفَرُ قَالَ: فَلَمَّا نَزَعَهُ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ لَهُ: ابْنُ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ فَقَالَ: ((اقْتُلُوهُ)) قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَبَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَوْمَئِذٍ مُحْرِمًا

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 109

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خودمبارک کابیان ’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ میں اس حالت میں داخل ہوئے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک پر خود تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتارا تو ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا: ابن خطل ( جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کرنے کا حکم دے رکھا ہے ) کعبۃ اللہ کے پردوں سے لٹکا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کو قتل کردو۔ ‘‘ ابن شھاب (زہری) فرماتے ہیں مجھے یہ خبر ملی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن احرام نہیں باندھا ہوا تھا۔
تشریح : ٭ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر خود تھی، اس کے بعد اگلے باب میں حدیث آرہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک پر سیاہ پگڑی تھی۔ ٭ دونوں حدیثوں میں تطبیق اس طرح ہو گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں داخل ہو نے کے بعد خود اتار کر سیاہ پگڑی پہن لی تھی۔ تب وہاں خطبہ ارشاد فرمایا جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔( صحیح مسلم، کتاب الحج، باب جواز دخول مکة بغیر إحرام، حدیث:۱۳۵۹۔) ٭ حدیث الباب سے ثابت ہورہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس دن حالت احرام میں نہیں تھے۔ حالانکہ مکہ معظمہ میں بغیر احرام کے داخلہ ممنوع ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مکۃ المکرمہ بلا احرام چند ساعتوں کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال کردیا گیا تھا جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ ’’لَمْ تَحِلّ لِأَ حَدٍ قَبْلِيْ وَلَا بَعْدِيْ دَائمًا، حَلَّتْ لِيْ سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ثُمَّ عَادَتْ حَرَامًا‘‘(صحیح بخاري، کتاب جزاء الصید، باب لا یعضد شجر الحرم، حدیث:۱۸۳۲۔۱۸۳۴۔ صحیح مسلم، کتاب الحج، باب تحریم مکة...، حدیث:۱۳۵۳،۱۳۵۴۔) کہ حرمِ مکہ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال تھا نہ میرے بعد کبھی کسی کے لیے حلال ہو گا، (فتح مکہ کے موقع پر) کچھ ساعتوں کے لیے حلال ہوا، پھر ہمیشہ کے لیے حرمت والا ہو گیا۔ بَابُ مَاجَاءَ فِيْ صِفَةِ مِغْفَرِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم مکمل ہوا۔
تخریج : تخریج کے لیے گذشتہ حدیث ملاخطہ فرمائیں۔ ٭ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر خود تھی، اس کے بعد اگلے باب میں حدیث آرہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک پر سیاہ پگڑی تھی۔ ٭ دونوں حدیثوں میں تطبیق اس طرح ہو گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں داخل ہو نے کے بعد خود اتار کر سیاہ پگڑی پہن لی تھی۔ تب وہاں خطبہ ارشاد فرمایا جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔( صحیح مسلم، کتاب الحج، باب جواز دخول مکة بغیر إحرام، حدیث:۱۳۵۹۔) ٭ حدیث الباب سے ثابت ہورہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس دن حالت احرام میں نہیں تھے۔ حالانکہ مکہ معظمہ میں بغیر احرام کے داخلہ ممنوع ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مکۃ المکرمہ بلا احرام چند ساعتوں کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال کردیا گیا تھا جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ ’’لَمْ تَحِلّ لِأَ حَدٍ قَبْلِيْ وَلَا بَعْدِيْ دَائمًا، حَلَّتْ لِيْ سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ثُمَّ عَادَتْ حَرَامًا‘‘(صحیح بخاري، کتاب جزاء الصید، باب لا یعضد شجر الحرم، حدیث:۱۸۳۲۔۱۸۳۴۔ صحیح مسلم، کتاب الحج، باب تحریم مکة...، حدیث:۱۳۵۳،۱۳۵۴۔) کہ حرمِ مکہ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال تھا نہ میرے بعد کبھی کسی کے لیے حلال ہو گا، (فتح مکہ کے موقع پر) کچھ ساعتوں کے لیے حلال ہوا، پھر ہمیشہ کے لیے حرمت والا ہو گیا۔ بَابُ مَاجَاءَ فِيْ صِفَةِ مِغْفَرِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم مکمل ہوا۔