كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ مِغْفَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ وَعَلَيْهِ مِغْفَرٌ، فَقِيلَ لَهُ: هَذَا ابْنُ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ: ((اقْتُلُوهُ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خودمبارک کابیان
’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر خود تھا، عرض کیا گیا کہ یہ ابن خطل ہے جو کہ کعبتہ اللہ کے غلاف کے ساتھ چمٹا ہوا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کو قتل کر دو۔ ‘‘
تشریح :
فتح مکہ کے دن سر مبارک پر خود تھا یا پگڑی ؟
٭ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں داخل ہو تے وقت سر مبارک پر خود پہن رکھا تھا۔ جبکہ دوسری روایت میں پگڑی کا ذکر ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الحج، باب جواز دخول مکة بغیر إحرام، حدیث:۱۳۵۸۔)حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ مکہ معظمہ میں داخل کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر خود تھا پھر جب مکہ میں داخل ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پگڑی پہن لی۔(فتح الباری (۳؍۳۴۹)۔)
٭ ابن خطل کو قتل کر دو۔ ابن خطل کا نام عبدالعزی تھا، یہ جب مسلمان ہوا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام عبداللہ رکھ دیا، یہ آسمانی وحی لکھا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عامل بنا کر صدقے اکٹھے کرنے کے لیے بھیجا، ساتھ میں ایک انصاری اور ایک غلام بھی تھا راستہ میں ایک جگہ پر آرام کے لیے رکے تو اس نے غلام کو حکم دیا کہ ہم سورہے ہیں ہمارے اٹھنے تک کھانے تیار کر لو۔ جب یہ بیدار ہوا تو کھانا تیار نہیں تھا اس نے خادم کو قتل کر دیا اور خود بھاگ گیا کہ کہیں میں اس کے بدلہ میں قتل نہ کر دیا جاؤں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انصاری صحابی نے ساری تفصیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم دیا۔ ابن خطل وہاں سے بھاگ کر مشرکین مکہ کے پاس آگیا اور اپنے اسلام سے مرتد ہوگیا۔ مزید بدبختی یہ مول لے لی کہ دو لونڈیوں کو اپنے ساتھ ملا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ شعروشاعری کرنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’اگروہ کہ کعبۃ اللہ کے پردوں میں بھی چھپا ہوا ہو تو اس کو کوئی امان نہیں، اس کو قتل کر دو۔‘‘ فتح مکہ کے موقع پر یہ بد بخت کعبۃ اللہ کے پاس گیا اور اس کے پردے تھا م کران سے لٹک گیا۔ اس نے اس آیت سے دلیل لیتے ہوئے اس طرح کیا کہ ﴿وَمَنْ دَخَلَہُ اَمِنًا﴾یعنی جو اس میں داخل ہو جائے، وہ امن میں آگیا۔ حالانکہ اس آیت سے اس کا استدلال درست نہیں تھا کیونکہ وہ مومن نہیں تھا اس نے تو صرف اہل جاہلیت کا طریقہ اپنایا، وہ بھی جرم کرنے کے بعد کعبۃ اللہ کا دامن تھام لیتے، اور جو بھی کعبتہ اللہ کے دامن میں پناہ لیتا لوگ اس کی عزت کرتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام اعلان فرمایا کہ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے، یا اپنے گھر کا دروازہ بندکر لے، یا بیت اللہ میں پناہ لے، تو وہ امن میں آگیا، اس کے لیے پناہ ہے، تو اس عام معافی سے گیارہ مردوں اور چھ عورتوں کو مستثنیٰ کر دیا، پھر ان لوگوں میں سے بھی سات مرد اور دوعورتیں مسلمان ہو گئیں اس بنا ء پر ان کو بھی معاف کر دیا، چار مرد اور چار عورتیں باقی رہ گئیں۔ مردوں میں حویرث بن نقیذ، ھلال بن خطل (جس کا ذکر ہے )مقیس بن صبابہ اور عبداللہ بن ابی سرح، یہ چار افراد تھے جن کے بارے میں فرمایا کہ میں ان کو امن نہیں دوں گا۔ ان میں سے بھی عبداللہ ابی سرح ایمان لے آئے، اور باقی تین قتل کر دئیے گئے۔ ابن خطل کو کس نے قتل کیا؟ اس بارے میں اختلاف ہے۔ اھل سیر کے بقول سعید بن حریث رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کیا۔ مگر مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ ابوبزرہ اسلمیٰ رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کیا، بعض روایات میں ان دونوں کا، اور ان کے ساتھ عمار بن یاسر اور زبیر بن العوام رضی اللہ عنہماکا نام بھی ملتا ہے۔ یہ بات ثابت ہے کہ اسے مقام ابراہیم اور ماء زمزم کے درمیان قتل کیا گیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے: فتح الباري (۳؍۳۴۸۔۳۴۹)۔)
تخریج :
بخاري،کتاب الصید (۴؍۱۸۴۶)، وکتاب الجهاد (۶؍۳۰۴۴) وکتاب المغازي، باب أین رکز النبي صلى الله عليه وسلم الرایة یوم الفتح، صحیح مسلم،کتاب الحج (۲؍۴۵۰ برقم ۹۸۹، ۹۹۰)، سنن أبي داود،کتاب الجهاد (۳؍۲۶۸۵)، سنن ترمذي ،کتاب الجهاد (۴؍۱۶۹۳)وقال حدیث حسن صحیح غریب لانعرف کبیر أحد راوه غیر مالك عن الذهری، سنن نسائي ، کتاب المناسك (۵؍۲۸۶۷)، سنن ابن ماجة ،کتاب الجهاد (۲؍۲۸۰۵)سنن دارمي، کتاب المناسک (۲؍۱۹۳۸) مسند أحمد بن حنبل (۳؍۱۰۹،۱۶۴، ۲۶۴، ۲۲۴، ۲۳۱، ۲۳۲، ۲۴۰)
فتح مکہ کے دن سر مبارک پر خود تھا یا پگڑی ؟
٭ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں داخل ہو تے وقت سر مبارک پر خود پہن رکھا تھا۔ جبکہ دوسری روایت میں پگڑی کا ذکر ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الحج، باب جواز دخول مکة بغیر إحرام، حدیث:۱۳۵۸۔)حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ مکہ معظمہ میں داخل کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر خود تھا پھر جب مکہ میں داخل ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پگڑی پہن لی۔(فتح الباری (۳؍۳۴۹)۔)
٭ ابن خطل کو قتل کر دو۔ ابن خطل کا نام عبدالعزی تھا، یہ جب مسلمان ہوا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام عبداللہ رکھ دیا، یہ آسمانی وحی لکھا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عامل بنا کر صدقے اکٹھے کرنے کے لیے بھیجا، ساتھ میں ایک انصاری اور ایک غلام بھی تھا راستہ میں ایک جگہ پر آرام کے لیے رکے تو اس نے غلام کو حکم دیا کہ ہم سورہے ہیں ہمارے اٹھنے تک کھانے تیار کر لو۔ جب یہ بیدار ہوا تو کھانا تیار نہیں تھا اس نے خادم کو قتل کر دیا اور خود بھاگ گیا کہ کہیں میں اس کے بدلہ میں قتل نہ کر دیا جاؤں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انصاری صحابی نے ساری تفصیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم دیا۔ ابن خطل وہاں سے بھاگ کر مشرکین مکہ کے پاس آگیا اور اپنے اسلام سے مرتد ہوگیا۔ مزید بدبختی یہ مول لے لی کہ دو لونڈیوں کو اپنے ساتھ ملا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ شعروشاعری کرنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’اگروہ کہ کعبۃ اللہ کے پردوں میں بھی چھپا ہوا ہو تو اس کو کوئی امان نہیں، اس کو قتل کر دو۔‘‘ فتح مکہ کے موقع پر یہ بد بخت کعبۃ اللہ کے پاس گیا اور اس کے پردے تھا م کران سے لٹک گیا۔ اس نے اس آیت سے دلیل لیتے ہوئے اس طرح کیا کہ ﴿وَمَنْ دَخَلَہُ اَمِنًا﴾یعنی جو اس میں داخل ہو جائے، وہ امن میں آگیا۔ حالانکہ اس آیت سے اس کا استدلال درست نہیں تھا کیونکہ وہ مومن نہیں تھا اس نے تو صرف اہل جاہلیت کا طریقہ اپنایا، وہ بھی جرم کرنے کے بعد کعبۃ اللہ کا دامن تھام لیتے، اور جو بھی کعبتہ اللہ کے دامن میں پناہ لیتا لوگ اس کی عزت کرتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام اعلان فرمایا کہ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے، یا اپنے گھر کا دروازہ بندکر لے، یا بیت اللہ میں پناہ لے، تو وہ امن میں آگیا، اس کے لیے پناہ ہے، تو اس عام معافی سے گیارہ مردوں اور چھ عورتوں کو مستثنیٰ کر دیا، پھر ان لوگوں میں سے بھی سات مرد اور دوعورتیں مسلمان ہو گئیں اس بنا ء پر ان کو بھی معاف کر دیا، چار مرد اور چار عورتیں باقی رہ گئیں۔ مردوں میں حویرث بن نقیذ، ھلال بن خطل (جس کا ذکر ہے )مقیس بن صبابہ اور عبداللہ بن ابی سرح، یہ چار افراد تھے جن کے بارے میں فرمایا کہ میں ان کو امن نہیں دوں گا۔ ان میں سے بھی عبداللہ ابی سرح ایمان لے آئے، اور باقی تین قتل کر دئیے گئے۔ ابن خطل کو کس نے قتل کیا؟ اس بارے میں اختلاف ہے۔ اھل سیر کے بقول سعید بن حریث رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کیا۔ مگر مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ ابوبزرہ اسلمیٰ رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کیا، بعض روایات میں ان دونوں کا، اور ان کے ساتھ عمار بن یاسر اور زبیر بن العوام رضی اللہ عنہماکا نام بھی ملتا ہے۔ یہ بات ثابت ہے کہ اسے مقام ابراہیم اور ماء زمزم کے درمیان قتل کیا گیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے: فتح الباري (۳؍۳۴۸۔۳۴۹)۔)