كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ دِرْعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، ((أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلَيْهِ يَوْمَ أُحُدٍ دِرْعَانِ، قَدْ ظَاهَرَ بَيْنَهُمَا))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ کا بیان
’’سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر احد کے دن دو زرہیں تھیں، دونوں کو اوپر نیچے پہن رکھا تھا۔ ‘‘
تشریح :
اس حدیث میں جنگ کی حالت کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور امت کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ اپنے بچاؤ اور احتیاط کو ملحوظ رکھیں، چنانچہ احتیاط وہو شیار ی، تو کل اور رضابا لقضاء کے منافی نہیں ہے۔ بلکہ یہ توحکم الٰہی کی تعمیل ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا :
﴿یٰأَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْ رَکُمْ فَا نْفِرُوْا ثُبَاتٍ أَوِ انْفِرُوْاجَمِیْعًا﴾(النساء )
’’اے ایمان والو!ہو شیاری سے کام لو، پھر دشمن کی طرف تھوڑے تھوڑے ہو کر نکلو یا اکٹھے چلو۔‘‘
یعنی دشمن کی گھات سے بچو اورا سے اپنے اوپر موقع نہ دو اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ہتھیار ساتھ رکھو، مسئلہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ دشمن کے مقابلہ میں اپنی حفاظت کی تدبیر کرنا مشروع ہے۔
یہ حدیث مراسیل صحابہ میں سے ہے کیونکہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ اُحد کی جنگ میں موجود نہیں تھے اس لیے کہ وہ اپنے والد محترم کے ساتھ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تھے اور اس وقت ان کی عمر صرف سات سال تھی۔ (طبقات ابن سعد (۱؍۴۸۹)۔ سبل الهدی والرشاد (۷؍۳۷۰)۔)
یَابُ مَا جَاءَ فِيْ صِفَةِ دِرْعِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهِ عَلَیْهِ وَسَلَّمِ مکمل ہوا۔
تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے سنن ابن ماجة، کتاب الجهاد، باب السلاح (۲؍۲۸۰۵)۔
اس حدیث میں جنگ کی حالت کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور امت کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ اپنے بچاؤ اور احتیاط کو ملحوظ رکھیں، چنانچہ احتیاط وہو شیار ی، تو کل اور رضابا لقضاء کے منافی نہیں ہے۔ بلکہ یہ توحکم الٰہی کی تعمیل ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا :
﴿یٰأَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْ رَکُمْ فَا نْفِرُوْا ثُبَاتٍ أَوِ انْفِرُوْاجَمِیْعًا﴾(النساء )
’’اے ایمان والو!ہو شیاری سے کام لو، پھر دشمن کی طرف تھوڑے تھوڑے ہو کر نکلو یا اکٹھے چلو۔‘‘
یعنی دشمن کی گھات سے بچو اورا سے اپنے اوپر موقع نہ دو اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ہتھیار ساتھ رکھو، مسئلہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ دشمن کے مقابلہ میں اپنی حفاظت کی تدبیر کرنا مشروع ہے۔
یہ حدیث مراسیل صحابہ میں سے ہے کیونکہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ اُحد کی جنگ میں موجود نہیں تھے اس لیے کہ وہ اپنے والد محترم کے ساتھ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تھے اور اس وقت ان کی عمر صرف سات سال تھی۔ (طبقات ابن سعد (۱؍۴۸۹)۔ سبل الهدی والرشاد (۷؍۳۷۰)۔)
یَابُ مَا جَاءَ فِيْ صِفَةِ دِرْعِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهِ عَلَیْهِ وَسَلَّمِ مکمل ہوا۔