شمائل ترمذی - حدیث 104

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ سَيْفِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ صُدْرَانَ الْبَصْرِيُّ،حَدَّثَنَا طَالِبُ بْنُ حُجَيْرٍ، عَنْ هُودٍ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: ((دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ يَوْمَ الْفَتْحِ وَعَلَى سَيْفِهِ ذَهَبٌ وَفِضَّةٌ)) قَالَ طَالِبٌ: فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْفِضَّةِ فَقَالَ: ((كَانَتْ قَبِيعَةُ السَّيْفِ فِضَّةً))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 104

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کا بیان ’’ھودبن عبداللہ بن سعید اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار پر سونا اور چاندی لگی ہوئی تھی۔ طالب ( ھود کے شاگرد، طالب بن حجیر ) نے کہا تو میں نے ان سے چاندی کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کا دستہ چاندی کا تھا۔‘‘
تخریج : یہ حدیث منکر ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے مختصر الشمائل میں لکھا ہے کہ اس سند کا راوی ھود بن عبداللہ ’’مجھول‘‘ ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس رو ایت کو شمائل کے علاوہ سنن ترمذي ، ابواب الجهاد (۴؍۱۶۹۰)میں ذکر کیا ہے او ر اسے حسن غریب کہا ہے جبکہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے یہ روایت اپنی مایہ ناز کتاب، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب (۴؍۱۴۷۰)میں مذیدہ العبدی (جو ھود بن عبداللہ کے دادا ہیں )کے ترجمہ میں نقل کر کے لکھا ہے کہ اس کی سند قوی نہیں ہے اسی طرح امام ذھبی رحمہ اللہ نے بھی سے ’’میزان الاعتدال ‘‘(۲؍۳۳۳)میں ذکر کر کے فرمایا ہے کہ ابن القطان کہتے ہیں میرے نزدیک یہ حسن نہیں، بلکہ ضعیف ہے۔ ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ نے اسے منکر کہا ہے: امام ذہبی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں : یہ روایت واقعی منکر ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار بارے سونے کے زیور کا ہمیں (صحیح روایت کے مطابق) پتہ نہیں ہے۔