شمائل ترمذی - حدیث 102

كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ سَيْفِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: ((كَانَتْ قَبِيعَةُ سَيْفِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فِضَّةٍ))

ترجمہ شمائل ترمذی - حدیث 102

کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کا بیان ’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کا دستہ چاندی کا تھا۔ ‘‘
تشریح : اس حدیث سے تلوار اور دیگر آلات حرب کو قلیل چاندی سے مزین او ر آراستہ کرنے کا جواز نکلتا ہے مگر سونے سے آراستہ کرنا جائز نہیں ہے۔ گھوڑے کی لگام اور زین کو سونے وچاندی سے آراستہ کرنے میں اختلاف ہے اسی طرح جنگ کی چھڑی اور قلم دان کو قلیل ساچاندی کا زیور چڑھانے میں اختلاف ہے۔ حدیث الباب میں جس تلوار کا ذکر ہے بقول امام بن القیم رحمہ اللہ وہ ذُوالفقار نامی تلوار ہے جو کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ نہ ہو تی تھی اور یہی تلوار پہن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ والے دن مکہ میں داخل ہوئے اسی تلوار کے متعلق ہے کہ احد کے مواقع پر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا یا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ہلایا تو وہ درمیان سے ٹوٹ گئی دوبارہ ہلایا تو وہ پہلے سے اچھی ہوگئی۔ اس سے مراد جنگ میں شکست، پھر فتح تھی۔ یہ تلوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ بدر میں نفل میں ملی تھی۔ (سنن ترمذي ، أبواب السیر، باب فی النفل، حدیث:۱۵۶۱۔ مسند أحمد (۱؍۲۷۱)۔)
تخریج : حدیث صحیح ہے۔ سنن أبي داود، کتاب الجهاد، باب في السیف (۳؍۲۵۸۳) سنن ترمذي ، أبواب الجهاد، باب في السیوف (۴؍۱۶۹۱)وقال حدیث حسن غریب، سنن نسائي ، کتاب الزینة (۸؍۲۱۹) سنن دارمي، کتاب السیر (۲؍۲۴۵۷)، سنن الکبرٰی للبیهقي (۴؍۱۴۳)، أخلاق النبي صلى الله عليه وسلم لأبي الشیخ (ص : ۱۵۱) وانظر إرواء الغلیل ‘ ْللألباني (۸۲۲) اس حدیث سے تلوار اور دیگر آلات حرب کو قلیل چاندی سے مزین او ر آراستہ کرنے کا جواز نکلتا ہے مگر سونے سے آراستہ کرنا جائز نہیں ہے۔ گھوڑے کی لگام اور زین کو سونے وچاندی سے آراستہ کرنے میں اختلاف ہے اسی طرح جنگ کی چھڑی اور قلم دان کو قلیل ساچاندی کا زیور چڑھانے میں اختلاف ہے۔ حدیث الباب میں جس تلوار کا ذکر ہے بقول امام بن القیم رحمہ اللہ وہ ذُوالفقار نامی تلوار ہے جو کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ نہ ہو تی تھی اور یہی تلوار پہن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ والے دن مکہ میں داخل ہوئے اسی تلوار کے متعلق ہے کہ احد کے مواقع پر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا یا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ہلایا تو وہ درمیان سے ٹوٹ گئی دوبارہ ہلایا تو وہ پہلے سے اچھی ہوگئی۔ اس سے مراد جنگ میں شکست، پھر فتح تھی۔ یہ تلوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ بدر میں نفل میں ملی تھی۔ (سنن ترمذي ، أبواب السیر، باب فی النفل، حدیث:۱۵۶۱۔ مسند أحمد (۱؍۲۷۱)۔)