كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي خَلْقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَشْعَثَ، يَعْنِي ابْنَ سَوَّارٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: ((رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ إِضْحِيَانٍ، وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهِ وَإِلَى الْقَمَرِ، فَلَهُوَ عِنْدِي أَحْسَنُ مِنَ الْقَمَرِ))
کتاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کا بیان
’’ سیّدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چاندنی رات میں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرخ جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا۔ میں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہوں، کبھی چاند کو دیکھتا ہوں۔ پس واقعہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے نزدیک چاند سے بھی بہت زیادہ خوبصورت تھے۔ ‘‘
تخریج : یہ حدیث ضعیف ہے۔ سنن ترمذي، کتاب الأدب، باب ماجاء فی الرخصة فی لبس الحمرة للرجال، حدیث نمبر: ۲۸۱۲۔ سنن دارمي: ۱؍ ۳۰۔ مستدرك حاکم: ۴؍ ۱۸۶۔ المعجم الکبیر للطبراني، برقم: ۱۸۴۲۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے اشعث کے طریق کے علاوہ نہیں جانتے۔ ‘‘ اشعث سے مراد اشعث بن سوار ہیں جو کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے مطابق ضعیف ہیں۔ امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس میں ’’ لین ‘‘ یعنی کمزوری ہے۔ امام ابن خراش رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ یہ اشعث نامی تمام لوگوں سے زیادہ ضعیف ہے۔ امام دار قطنی رحمہ اللہ اور امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے، لیکن اس کے باوجود امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس پر ان کی موافقت کی ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو ’’ مختصر الشمائل المحمدیہ ‘‘ میں صفحہ نمبر: ۲۷ میں صحیح قرار دیا ہے۔
لیکن مذکورہ بالا سند کو دیکھتے ہوئے یہ روایت صحیح قرار نہیں دی جاسکتی، کیونکہ اس میں اشعث بن سوار الکندی الکوفی النجار ضعیف راوی ہیں۔ اور سنن ترمذی، سنن دارمی، مستدرک حاکم اور المعجم الکبیر کی اسناد کے مطابق اس روایت کا مدار بھی اشعث بن سوار پر ہے، کوئی اس کا متابع بھی نہیں، اور دوسری مصیبت اس میں یہ ہے کہ اشعث بن سوار کے استاذ ابواسحق بھی مدلس ہیں اور صیغۂ عنعنہ کے ساتھ روایت کر رہے ہیں، لہٰذا یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ والله أعلم بالصواب۔