سنن النسائي - حدیث 986

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ الْقِرَاءَةُ فِي الْمَغْرِبِ بِالْمُرْسَلَاتِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ قَالَتْ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِهِ الْمَغْرِبَ فَقَرَأَ الْمُرْسَلَاتِ مَا صَلَّى بَعْدَهَا صَلَاةً حَتَّى قُبِضَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 986

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: مغرب کی نماز میں سورۂ مرسلات پڑھنا حضرت ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے گھر میں مغرب کی نماز پڑھائ یاور سورہ مرسلات پڑھی۔ اس کے بعد آپ نے کوئی باجماعت نماز نہیں پڑھائی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے۔
تشریح : (۱)اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں آخری نماز مغرب پڑھائی جبکہ صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ظہر کی نماز کے متعلق صراحت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الاذان، حدیث: ۶۸۷، و صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: ۴۱۸) ان دونوں روایات میں تعارض نہیں ہے۔ جس حدیث میں ظہر کی نماز کا ذکر ہے، اس سے مراد ہے کہ آپ نے مسجد میں لوگوں کو آخری نماز ظہر کی پڑھائی اور مذکورہ حدیث سے مراد ہے کہ آپ نے بیماری کی وجہ سے گھر میں عورتوں کو مغرب کی نماز پڑھائی۔ دیکھیے: (فتح الباری: ۲۲۷/۲، تحت حدیث: ۶۸۷) (۲) نماز مغرب میں قراءت کا عام معمول تو چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھنا ہی ہے لیکن اگر کسی وقت لمبی قراءت کرلی جائے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔ (۱)اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں آخری نماز مغرب پڑھائی جبکہ صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ظہر کی نماز کے متعلق صراحت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الاذان، حدیث: ۶۸۷، و صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: ۴۱۸) ان دونوں روایات میں تعارض نہیں ہے۔ جس حدیث میں ظہر کی نماز کا ذکر ہے، اس سے مراد ہے کہ آپ نے مسجد میں لوگوں کو آخری نماز ظہر کی پڑھائی اور مذکورہ حدیث سے مراد ہے کہ آپ نے بیماری کی وجہ سے گھر میں عورتوں کو مغرب کی نماز پڑھائی۔ دیکھیے: (فتح الباری: ۲۲۷/۲، تحت حدیث: ۶۸۷) (۲) نماز مغرب میں قراءت کا عام معمول تو چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھنا ہی ہے لیکن اگر کسی وقت لمبی قراءت کرلی جائے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔