سنن النسائي - حدیث 983

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ تَخْفِيفُ الْقِيَامِ وَالْقِرَاءَةِ صحيح أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ مَا صَلَّيْتُ وَرَاءَ أَحَدٍ أَشْبَهَ صَلَاةً بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فُلَانٍ قَالَ سُلَيْمَانُ كَانَ يُطِيلُ الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ مِنْ الظُّهْرِ وَيُخَفِّفُ الْأُخْرَيَيْنِ وَيُخَفِّفُ الْعَصْرَ وَيَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ وَيَقْرَأُ فِي الْعِشَاءِ بِوَسَطِ الْمُفَصَّلِ وَيَقْرَأُ فِي الصُّبْحِ بِطُوَلِ الْمُفَصَّلِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 983

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: (امام کا) قیام اور قراءت میں تخفیف کرنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کسی ایسے شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جس کی نماز فلاں (عمر بن عبدالعزیز) سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہو۔ اور سلیمان بن یسار نے کہا: وہ شخص ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی کرتا تھا اور آخری دو ہلکی پڑھاتا تھا۔ اور عصر کی نماز ہلکی پڑھاتا تھا۔ مغرب کی نماز میں چھوٹی مفصل سورتیں پڑھتا تھا۔ اور عشاء میں درمیانی مفصل سورتیں پڑھتا تھا۔ اور صبح کی نماز میں لمبی مفصل سورتیں پڑھتا تھا۔
تشریح : (۱)اگرچہ بعض روایات میں عصر کی نماز کو ظہر کے برابر بتلایا گیا ہے مگر کثیر اور راجح روایات کی رو سے عصر کی نماز ظہر کی نماز سے تقریباً نصف ہوتی تھی۔ اس کی مناسبت ظہر کی بجائے مغرب کے ساتھ زیادہ تھی۔ (۲) مغرب کی نماز میں بہت ہلکی قراءت ہونی چاہیے۔ (۳) ’’مفصل‘‘ سے مراد قرآن مجید کی آخری ساتویں منزل ہے جس میں چھوٹی سورتیں ہیں جو عام طور پر نمازوں میں پڑھی جاتی ہیں۔ فاصلہ تھوڑا تھوڑا ہونے کی وجہ سے انھیں مفصل کہا جاتا ہے۔ ان کی ابتدا سورۂ حجرات سے ہوتی ہے۔ آگے تقسیم میں مختلف اقوال منقول ہیں۔ زیادہ مشہور یہ ہے کہ طوال مفصل ’’حجرات‘‘ سے ’’بروج‘‘ تک اور اوساط مفصل یہاں سے ’’بینہ‘‘ تک اور قصار مفصل اس سے آگے آخر تک ہیں۔ طوال مفصل صبح کی نماز میں، اوساط مفصل عشاء اور ظہر کی نماز میں اور قصار مفصل مغرب اور عصر کی نماز میں پڑھی جاتی ہیں۔ مغرب کی نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات لمبی سورت بھی پڑھ لیتے تھے، معمول قصار مفصل ہی کا تھا۔ واللہ اعلم۔ (۱)اگرچہ بعض روایات میں عصر کی نماز کو ظہر کے برابر بتلایا گیا ہے مگر کثیر اور راجح روایات کی رو سے عصر کی نماز ظہر کی نماز سے تقریباً نصف ہوتی تھی۔ اس کی مناسبت ظہر کی بجائے مغرب کے ساتھ زیادہ تھی۔ (۲) مغرب کی نماز میں بہت ہلکی قراءت ہونی چاہیے۔ (۳) ’’مفصل‘‘ سے مراد قرآن مجید کی آخری ساتویں منزل ہے جس میں چھوٹی سورتیں ہیں جو عام طور پر نمازوں میں پڑھی جاتی ہیں۔ فاصلہ تھوڑا تھوڑا ہونے کی وجہ سے انھیں مفصل کہا جاتا ہے۔ ان کی ابتدا سورۂ حجرات سے ہوتی ہے۔ آگے تقسیم میں مختلف اقوال منقول ہیں۔ زیادہ مشہور یہ ہے کہ طوال مفصل ’’حجرات‘‘ سے ’’بروج‘‘ تک اور اوساط مفصل یہاں سے ’’بینہ‘‘ تک اور قصار مفصل اس سے آگے آخر تک ہیں۔ طوال مفصل صبح کی نماز میں، اوساط مفصل عشاء اور ظہر کی نماز میں اور قصار مفصل مغرب اور عصر کی نماز میں پڑھی جاتی ہیں۔ مغرب کی نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات لمبی سورت بھی پڑھ لیتے تھے، معمول قصار مفصل ہی کا تھا۔ واللہ اعلم۔