سنن النسائي - حدیث 98

صِفَةُ الْوُضُوءِ بَاب صِفَةِ مَسْحِ الرَّأْسِ صحيح أَخْبَرَنَا عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ مَالِكٍ هُوَ ابْنُ أَنَسٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ وَهُوَ جَدُّ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى هَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُرِيَنِي كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ نَعَمْ فَدَعَا بِوَضُوءٍ فَأَفْرَغَ عَلَى يَدِهِ الْيُمْنَى فَغَسَلَ يَدَيْهِ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا ثُمَّ غَسَلَ يَدَيْهِ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ ثُمَّ ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ ثُمَّ رَدَّهُمَا حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي بَدَأَ مِنْهُ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 98

کتاب: وضو کا طریقہ سر کے مسح کا طریقہ حضرت یحیی مازنی سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے گزارش کی اور آپ عمرو بن یحیی کے نانا تھے: کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کیسے کرتے تھے؟ حضرت عبداللہ نے کہا، ہاں۔ پھرآپ نے وضو کا پانی منگوایا اور اپنے دائیں ہاتھ پر ڈالا اور دونوں ہاتھ دو دو مرتبہ دھوئے، پھر تین دفعہ کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا، پھر تین دفعہ اپنا چہرہ دھویا، پھر اپنے دونوں بازو دو دو مرتبہ کہنیوں سمیت دھوئے۔ پھر دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا اس طرح کہ دونوں ہاتھ آگے پیچھے لائے، مسح کی ابتدا سر کے اگلے حصے سے کی، پھر ہاتھوں کو اپنی گدی کی طرف لے گئے، پھر واپس لائے حتی کہ اس جگہ پہنچ گئے جہاں سے مسح کی ابتدا کی تھی، پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔
تشریح : اس حدیث میں سر کے مسح کا تفصیلی ذکر ہے کہ پورے سر کا مسح کیا جائے گا۔ آپ کے وضو کی حدیث میں پورے سر کے مسح ہی کا ذکر ہے، اسی لیے امام مالک رحمہ اللہ نے پورے سر کا مسح فرض قرار دیا ہے اور یہی صحیح ہے۔ احناف نے چوتھائی سر (کسی بھی جانب) کے مسح کو کافی کہا ہے مگر دلائل کی رو سے یہ موقف کمزور ہے۔ اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ کا خیال کہ ’’چند بالوں پر بھی مسح ہو جائے تو کافی ہے۔‘‘ لیکن احناف اور شوافع کا موقف ان صریح احادیث کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا لہٰذا مکمل سر کا مسح کرنا ضروری ہے۔ واللہ أعلم۔ اس حدیث میں سر کے مسح کا تفصیلی ذکر ہے کہ پورے سر کا مسح کیا جائے گا۔ آپ کے وضو کی حدیث میں پورے سر کے مسح ہی کا ذکر ہے، اسی لیے امام مالک رحمہ اللہ نے پورے سر کا مسح فرض قرار دیا ہے اور یہی صحیح ہے۔ احناف نے چوتھائی سر (کسی بھی جانب) کے مسح کو کافی کہا ہے مگر دلائل کی رو سے یہ موقف کمزور ہے۔ اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ کا خیال کہ ’’چند بالوں پر بھی مسح ہو جائے تو کافی ہے۔‘‘ لیکن احناف اور شوافع کا موقف ان صریح احادیث کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا لہٰذا مکمل سر کا مسح کرنا ضروری ہے۔ واللہ أعلم۔