سنن النسائي - حدیث 953

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ بَاب الْفَضْلِ فِي قِرَاءَةِ الْمُعَوِّذَتَيْنِ صحيح أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ حِزَامٍ التِّرْمِذِيُّ وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي سُفْيَانُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمُعَوِّذَتَيْنِ قَالَ عُقْبَةُ فَأَمَّنَا بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 953

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: صبح کی نماز میں معوذتین پڑھنا حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معوذتین (کی فضیلت) کے بارے میں پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی امامت فرماتے ہوئے یہ دونوں سورتیں پڑھیں۔
تشریح : (۱) معوذتین سے مراد قرآن مجید کی آخری دو سورتیں: (قل اعوذ برب الفلق) اور (قل اعوذ برب الناس) ہیں۔ انھیں معوذتین اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ جادو اور جن وغیرہ سے کے شر سر انسان کو پناہ مہیا کرتی ہیں بلکہ ان کے اتارنے کا سبب ہی یہ ہے۔ (۲) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ دونوں سورتیں قرپن مجید کا جز ہیں اور انھیں نماز میں پڑھا جا سکتا ہے نہ کہ جیسا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ ’’یہ صرف دم اور تعویذ کے لیے ہیں، ان کی قراءت درست نہیں اور نہ یہ قرآن کا جز ہیں۔‘‘ اس حدیث کی مزید تفصیل اگلے باب میں آ رہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سورتوں کو صبح کی نماز میں پڑھنا ان کی عظمت پر دلالت کرتا ہے۔ (۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تو صبح کی نماز میں لمبی قراءت کرنا ہی تھا لیکن کبھی کبھی بیان جواز کے لیے چھوٹی سورتیں بھی پڑھ لیا کرتے تھے جیسے سورۂ زلزال کے بارے میں ہے کہ آپ نے فجر کی نماز میں اسے پڑھا تھا۔ دیکھیے: (سنن ابي داود، الصلاۃ، حدیث: ۸۱۶) (۱) معوذتین سے مراد قرآن مجید کی آخری دو سورتیں: (قل اعوذ برب الفلق) اور (قل اعوذ برب الناس) ہیں۔ انھیں معوذتین اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ جادو اور جن وغیرہ سے کے شر سر انسان کو پناہ مہیا کرتی ہیں بلکہ ان کے اتارنے کا سبب ہی یہ ہے۔ (۲) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ دونوں سورتیں قرپن مجید کا جز ہیں اور انھیں نماز میں پڑھا جا سکتا ہے نہ کہ جیسا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ ’’یہ صرف دم اور تعویذ کے لیے ہیں، ان کی قراءت درست نہیں اور نہ یہ قرآن کا جز ہیں۔‘‘ اس حدیث کی مزید تفصیل اگلے باب میں آ رہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سورتوں کو صبح کی نماز میں پڑھنا ان کی عظمت پر دلالت کرتا ہے۔ (۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تو صبح کی نماز میں لمبی قراءت کرنا ہی تھا لیکن کبھی کبھی بیان جواز کے لیے چھوٹی سورتیں بھی پڑھ لیا کرتے تھے جیسے سورۂ زلزال کے بارے میں ہے کہ آپ نے فجر کی نماز میں اسے پڑھا تھا۔ دیکھیے: (سنن ابي داود، الصلاۃ، حدیث: ۸۱۶)