كِتَابُ الِافْتِتَاحِ الْقِرَاءَةُ فِي رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ صحيح أَخْبَرَنِي عِمْرَانُ بْنُ يَزِيدَ قَالَ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ يَسَارٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فِي رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ فِي الْأُولَى مِنْهُمَا الْآيَةَ الَّتِي فِي الْبَقَرَةِ قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا إِلَى آخِرِ الْآيَةِ وَفِي الْأُخْرَى آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ(آل عمران:52)
کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل
باب: فجر کی سنتوں میں قراءت
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو سنتوں میں سے پہلی میں سورۂ بقرہ کی آیت: (قولوا امنا بالہل و مآ انزل الینا……) اور دوسری رکعت میں: (امنا بالہل و اشھد بانا مسلمون) والی آیت پڑھتے تھے۔
تشریح :
(۱)اس حدیث مبارکہ میں فجر کی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد قراءت کرنے کی دلیل ہے جیسا کہ جمہور اہل علم کا موقف ہے لیکن امام مالک اور ان کے اکثر اصحاب فجر کی سنتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد قراءت کے قائل نہیں، ان کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے جس میں وہ فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو رکعتیں اس قدر ہلکی پڑھتے تھے کہ میں (دل میں) کہتی کہ آپ نے سورۂ فاتحہ بھی پڑھی ہے کہ نہیں۔ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: ۷۲۴) امام نووی رحمہ اللہ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس میں نماز کے مختصر ہونے کا مبالغہ ہے کیونکہ آپ کی عام عادت یہ تھی کہ آپ نفل نماز لمبی پڑھتے اور فجر کی سنتیں ان کی نسبت انتہائی مختصر ہوتی تھیں۔ دیکھیے (شرح صحیح مسلم للنووي: ۹-۶/۶) (۲) فجر کی دو سنتوں میں مذکورہ آیات کی قراءت کرنا مستحب ہے۔
(۱)اس حدیث مبارکہ میں فجر کی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد قراءت کرنے کی دلیل ہے جیسا کہ جمہور اہل علم کا موقف ہے لیکن امام مالک اور ان کے اکثر اصحاب فجر کی سنتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد قراءت کے قائل نہیں، ان کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے جس میں وہ فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو رکعتیں اس قدر ہلکی پڑھتے تھے کہ میں (دل میں) کہتی کہ آپ نے سورۂ فاتحہ بھی پڑھی ہے کہ نہیں۔ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: ۷۲۴) امام نووی رحمہ اللہ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس میں نماز کے مختصر ہونے کا مبالغہ ہے کیونکہ آپ کی عام عادت یہ تھی کہ آپ نفل نماز لمبی پڑھتے اور فجر کی سنتیں ان کی نسبت انتہائی مختصر ہوتی تھیں۔ دیکھیے (شرح صحیح مسلم للنووي: ۹-۶/۶) (۲) فجر کی دو سنتوں میں مذکورہ آیات کی قراءت کرنا مستحب ہے۔