سنن النسائي - حدیث 937

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ جَامِعُ مَا جَاءَ فِي الْقُرْآنِ صحيح أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ ابْنِ مَخْرَمَةَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ فَقَرَأَ فِيهَا حُرُوفًا لَمْ يَكُنْ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَنِيهَا قُلْتُ مَنْ أَقْرَأَكَ هَذِهِ السُّورَةَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ كَذَبْتَ مَا هَكَذَا أَقْرَأَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ أَقُودُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ أَقْرَأْتَنِي سُورَةَ الْفُرْقَانِ وَإِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ فِيهَا حُرُوفًا لَمْ تَكُنْ أَقْرَأْتَنِيهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْرَأْ يَا هِشَامُ فَقَرَأَ كَمَا كَانَ يَقْرَأُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَكَذَا أُنْزِلَتْ ثُمَّ قَالَ اقْرَأْ يَا عُمَرُ فَقَرَأْتُ فَقَالَ هَكَذَا أُنْزِلَتْ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 937

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: قرآن مجید کا بیان حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام کو سورۂ فرقان پڑھتے سنا۔ انھوں نے اس میں کچھ ایسے الفاظ پڑھے جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں سکھلائے تھے۔ میں نے کہا: تمھیں کس نے یہ سورت پڑھائی ہے؟ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ میں نے کہا: تم غلط کہتے ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھیں اس طرح نہیں پڑھائی۔ میں ان کا ہاتھ پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لےگیا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے مجھے سورۂ فرقان پڑھائی ہے اور میں نے انھیں اس سورت میں ایسے الفاظ پڑھتے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے؟ آپ نے فرمایا: ’’اے ہشام! پڑھو۔‘‘ انھوں نے ڑھا جس طرح پہلے پڑھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسی طرح اتاری گئی ہے۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’اے عمر! تم پڑھو۔‘‘ میں نے پڑھا تو آپ نے فرمایا: ’’اسی طرح اتاری گئی ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قرآن مجید سات قراءت پر اتارا گیا ہے۔‘‘
تشریح : (۱)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے [بعۃ احرف] کی تشریح میں مختلف اقوال نقل کیے ہیں اور ان پر وارد ہونے والے اعتراضات و اشکالات پیش کرکے ان اقوال کی تردید کی ہے، پھر ترجیح دیتے ہوئے امام ابن قتیبہ اور امام ابوالفضل رازی رحمہا اللہ کے اقوال نقل کیے ہیں اور کہا ہے کہ امام رازی نے امام ابن قتیبہ ہی کی بات کو مزید نکھار کر پیش کیا ہے۔ ہم طوالت کے ڈر سے یہاں صرف راجح قول ہی ذکر کرتے ہیں جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں نقل کیا ہے۔ امام ابن قتیبہ اور امام رازی کے نزدیک حدیث میں حروف کے اختلاف سے مراد قراءت کا اختلاف ہے۔ اور سات حروف سے مراد اختلاف قراءت کی سات توعیتیں ہیں، چنانچہ قراءتیں اگرچہ سات سے زائد ہیں لیکن ان قراءتوں میں جو اختلافات پائے جاتے ہیں، وہ سات اقسام میں منحصر ہے: (۱) اسماء کا اختلاف: جس میں افراد، تثنیہ، جمع اور تذکیر و تانیث دونوں کا اختلاف داخل ہے، مثلاً: ایک قراءت میں ہے: (تمت کلمۃ ربک) اور دوسری میں ہے: (تمت کلمات ربک) (۲) افعال کا اختلاف کہ کسی قراءت میں صیغۂ ماضی ہو، کسی میں مضارع اور کسی میں امر، جیسے ایک قراءت کے مطابق (ربنا بعدبین اسفارنا) اور دوسری میں (ربنا بعذبین اسفارنا) ہے۔ (۳) وجوہ اعراب کا اختلاف: جس میں حرکات و سکنات مختلف قراءتوں میں مختلف ہوں، مثلاً: (ولا یضار کاتب) اور (ولا یضار کاتب) اور (ذوالعرش المجید) دوسری قراءت میں ہے: (ذوالعرش المجید) (۴) الفاظ کی کمی بیشی کا اختلاف: ایک قراءت میں کوئی لفظ کم اور دوسری میں زیادہ ہو، مثلاً: ایک قراءت میں (وما خلق الذکر والانثی) اور دوسری میں (ولاذکر والانثی) ہے۔ اس میں لفظ (وما خلق) نہیں ہے۔ اسی طرح ایک قراءت میں ہے: (تجری من تحتھا الانھار) اور دوسری میں (تجری تحتھا الانھار) ہے۔ (۵) تقدیم و تاخیر کا اختلاف: یعنی ایک قراءت میں کوئی لفظ مقدم اور دوسری میں مؤخر ہو، مثلاً: (وجاءت سکرۃ الموت بالحق) اور دوسری میں (وجاءت سکرۃ الحق بالموت) ہے۔ (۶) بدلیت کا اختلاف، یعنی ایک قراءت میں ایک لفظ اور دوسری میں اس کی جگہ دوسرا لفظ ہو، مثلاً: (ننشزھا) اور اس کی جگہ دوسری قراءت میں (ننشرھا) ہے، نیز (فتبیوا) کی جگہ (فتئبتوا) اور (طلح منضود) کی جگہ (طلع منضود) (۷) لہجوں کا اختلاف: جس میں تفخیم، ترقیق، امالہ، قصر، مد، ہمزہ، اظہار اور ادغام وغیرہ کے اختلاف شامل ہیں۔ محقق ابن جزری، امام مالک اور قاضی باقلانی رحمہم اللہ بھی اس سے متفق ہیں۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباری: ۳۹-۳۴/۹، تحت حدیث: ۴۹۹۲، واصول تفسیر (اردو)، ص:۸۷-۸۱، مطبوعہ دارالسلام) (۲) خطا (غلطی) پرکذب (جھوٹ) کا اطلاق کرنا جائز ہے۔ بعض لوگوں نے مندرجہ بالا حقیقت نہ سمجھنے کی وجہ سے اس قسم کی روایات کا انکار کیا ہے کہ اس سے قرآن مجید شکوک و شبہات کا شکار ہوتا ہے، حالانکہ مختلف علاقوں اور قبائل کے لہجے وغیرہ کا اختلاف ایک بدیہی چیز ہے، اس سے اصل کلام میں فرق نہیں پڑتا جس طرح غیر زبانوں میں قرآن مجید کے مختلف تراجم سے قرآن مجید کی بابت کوئی شبہ پیدا نہیں ہوتا۔ (۱)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے [بعۃ احرف] کی تشریح میں مختلف اقوال نقل کیے ہیں اور ان پر وارد ہونے والے اعتراضات و اشکالات پیش کرکے ان اقوال کی تردید کی ہے، پھر ترجیح دیتے ہوئے امام ابن قتیبہ اور امام ابوالفضل رازی رحمہا اللہ کے اقوال نقل کیے ہیں اور کہا ہے کہ امام رازی نے امام ابن قتیبہ ہی کی بات کو مزید نکھار کر پیش کیا ہے۔ ہم طوالت کے ڈر سے یہاں صرف راجح قول ہی ذکر کرتے ہیں جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں نقل کیا ہے۔ امام ابن قتیبہ اور امام رازی کے نزدیک حدیث میں حروف کے اختلاف سے مراد قراءت کا اختلاف ہے۔ اور سات حروف سے مراد اختلاف قراءت کی سات توعیتیں ہیں، چنانچہ قراءتیں اگرچہ سات سے زائد ہیں لیکن ان قراءتوں میں جو اختلافات پائے جاتے ہیں، وہ سات اقسام میں منحصر ہے: (۱) اسماء کا اختلاف: جس میں افراد، تثنیہ، جمع اور تذکیر و تانیث دونوں کا اختلاف داخل ہے، مثلاً: ایک قراءت میں ہے: (تمت کلمۃ ربک) اور دوسری میں ہے: (تمت کلمات ربک) (۲) افعال کا اختلاف کہ کسی قراءت میں صیغۂ ماضی ہو، کسی میں مضارع اور کسی میں امر، جیسے ایک قراءت کے مطابق (ربنا بعدبین اسفارنا) اور دوسری میں (ربنا بعذبین اسفارنا) ہے۔ (۳) وجوہ اعراب کا اختلاف: جس میں حرکات و سکنات مختلف قراءتوں میں مختلف ہوں، مثلاً: (ولا یضار کاتب) اور (ولا یضار کاتب) اور (ذوالعرش المجید) دوسری قراءت میں ہے: (ذوالعرش المجید) (۴) الفاظ کی کمی بیشی کا اختلاف: ایک قراءت میں کوئی لفظ کم اور دوسری میں زیادہ ہو، مثلاً: ایک قراءت میں (وما خلق الذکر والانثی) اور دوسری میں (ولاذکر والانثی) ہے۔ اس میں لفظ (وما خلق) نہیں ہے۔ اسی طرح ایک قراءت میں ہے: (تجری من تحتھا الانھار) اور دوسری میں (تجری تحتھا الانھار) ہے۔ (۵) تقدیم و تاخیر کا اختلاف: یعنی ایک قراءت میں کوئی لفظ مقدم اور دوسری میں مؤخر ہو، مثلاً: (وجاءت سکرۃ الموت بالحق) اور دوسری میں (وجاءت سکرۃ الحق بالموت) ہے۔ (۶) بدلیت کا اختلاف، یعنی ایک قراءت میں ایک لفظ اور دوسری میں اس کی جگہ دوسرا لفظ ہو، مثلاً: (ننشزھا) اور اس کی جگہ دوسری قراءت میں (ننشرھا) ہے، نیز (فتبیوا) کی جگہ (فتئبتوا) اور (طلح منضود) کی جگہ (طلع منضود) (۷) لہجوں کا اختلاف: جس میں تفخیم، ترقیق، امالہ، قصر، مد، ہمزہ، اظہار اور ادغام وغیرہ کے اختلاف شامل ہیں۔ محقق ابن جزری، امام مالک اور قاضی باقلانی رحمہم اللہ بھی اس سے متفق ہیں۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباری: ۳۹-۳۴/۹، تحت حدیث: ۴۹۹۲، واصول تفسیر (اردو)، ص:۸۷-۸۱، مطبوعہ دارالسلام) (۲) خطا (غلطی) پرکذب (جھوٹ) کا اطلاق کرنا جائز ہے۔ بعض لوگوں نے مندرجہ بالا حقیقت نہ سمجھنے کی وجہ سے اس قسم کی روایات کا انکار کیا ہے کہ اس سے قرآن مجید شکوک و شبہات کا شکار ہوتا ہے، حالانکہ مختلف علاقوں اور قبائل کے لہجے وغیرہ کا اختلاف ایک بدیہی چیز ہے، اس سے اصل کلام میں فرق نہیں پڑتا جس طرح غیر زبانوں میں قرآن مجید کے مختلف تراجم سے قرآن مجید کی بابت کوئی شبہ پیدا نہیں ہوتا۔