سنن النسائي - حدیث 936

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ جَامِعُ مَا جَاءَ فِي الْقُرْآنِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَالِجُ مِنْ التَّنْزِيلِ شِدَّةً وَكَانَ يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ قَالَ جَمْعَهُ فِي صَدْرِكَ ثُمَّ تَقْرَؤُهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ قَالَ فَاسْتَمِعْ لَهُ وَأَنْصِتْ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ اسْتَمَعَ فَإِذَا انْطَلَقَ قَرَأَهُ كَمَا أَقْرَأَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 936

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: قرآن مجید کا بیان حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: (لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہo ان علینا جمعہ و قرانہ) (القیمۃ ۱۷،۱۶:۷۵) ’’اے نبی! اس (وحی) کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ یقیناً اسے جمع کرنا اور پڑھا دینا ہماری ذمے داری ہے۔‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن اترتے وقت (اسے یاد کرنے کے لیے) اپنے ہونٹوں کو ہلایا کرتے تھے اور اس سے آپ کو کافی تکلیف ہوتی تھی۔ (اس پر) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (لاتحرک بہ لسانک……… الآیۃ) یعنی اسے آپ کے سینے میں محفوظ کر دینا اور آپ کا اسے (بعینہٖ) پڑھنا (یعنی آپ سے بعینہٖ پڑھوانا) ہماری ذمے داری ہے۔ پھر اس فرمان الٰہی: (فاذا قرانہ فاتبع قرانہ) القیمۃ ۱۸:۷۵) ’’پھر جب ہم پڑھ چکیں تو آپ ہمارے پڑھنے کی پیروی کریں۔‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: خاموشی سے کان لگا کر سنتے رہیں۔ اس کے بعد جب جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر قرآن سناتے تو آپ توجہ سے سنتے رہتے۔ جب وہ چلے جاتے تو آپ (وعدۂ الٰہی کے مطابق) بالکل اسی طرح پڑھتے جیسے فرشتے نے پڑھا ہوتا تھا۔
تشریح : (۱)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ ساتھ پڑھنا اس خطرے کے پیش نظر تھا کہ مجھے کچھ بھول نہ جائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حفاظت کا ذمہ لے لیا تو آپ نے ساتھ ساتھ پڑھنا چھوڑ دیا۔ (۲) حدیث میں ہونٹ ہلانے کا ذکر ہے جب کہ قرآن مجید میں زبان کی حرکت کا۔ دراصل زبان کی حرکت کا علم ہونٹوں کے ہلنے سے ہوتا ہے، نیز مراد پڑھنا ہے اور پڑھتے وقت ہونٹ بھی ہلتے ہیں اور زبان بھی۔ مختصر صحیح البخاری (اردو) مطبوعہ دارالسلام میں اس حدیث کے فوائد کچھ یوں ہیں: ’’اس حدیث میں قرآن حکیم کے متعلق تین مراحل کا ذکر کیا گیا ہے: پہلا مرحلہ آپ کے سینۂ مبارک میں محفوظ طریقے سے اتارنا ہے، دوسرا مرحلہ قلب مبارک میں جمع شدہ قرآن کو زبان کے ذریعے سے پڑھنے کی توفیق دینا اور آخری مرحلہ قرآن کے مجملات کی تشریح اور مشکلات کی توضیح ہے جو احادیث (صحیحہ) کی شکل میں موجود ہے۔ ان تمام مراحل کی ذمے داری خود اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے۔‘‘ (عون الباری: ۱:۵۸) یہ یاد رہے کہ بخاری شریف کی حدیث میں نسائی شریف کی حدیث کی نسبت کچھ الفاظ زیادہ ہیں، لہٰذا اس مناسبت سے یہ تشریح کی گئی ہے۔ واللہ أعلم۔ (۳) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نزولوحی کے وقت کبھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور یہ وحی کے بوجھ کی وجہ سے تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (انا سلقی علیک قولا ثقیلا) (المزمل ۵:۷۳) ’’یقینا ہم جلد آپ پر بھاری بات ڈالیں گے۔‘‘ (۴) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلمکی ضمانت خود اٹھائی تھی کہ انھیں قرآن بھولے گا نہیں اور اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ غور سے سنتے۔ جب جبرئیل علیہ السلام اپنی قراءت مکمل کرلیتے اور واپس چلے جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو اسی طرح پڑھ کر سناتے جس طرح جبرئیل نے آپ کو پڑھایا ہوتا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (سنقرئک فلاثنسی) (الاعلی ۶:۸۷) ’’ہم جلد آپ کو پڑھائیں گے، پھر آپ بھولیں گے نہیں۔‘‘ (۵) اس حدیث مبارکہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی بھی قرآن کریم کو حفظ کرنا چاہے، وہ اللہ ی مدد اور اس کے فضل کے بغیر حفظ نہیں کرسکتا۔ (۱)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ ساتھ پڑھنا اس خطرے کے پیش نظر تھا کہ مجھے کچھ بھول نہ جائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حفاظت کا ذمہ لے لیا تو آپ نے ساتھ ساتھ پڑھنا چھوڑ دیا۔ (۲) حدیث میں ہونٹ ہلانے کا ذکر ہے جب کہ قرآن مجید میں زبان کی حرکت کا۔ دراصل زبان کی حرکت کا علم ہونٹوں کے ہلنے سے ہوتا ہے، نیز مراد پڑھنا ہے اور پڑھتے وقت ہونٹ بھی ہلتے ہیں اور زبان بھی۔ مختصر صحیح البخاری (اردو) مطبوعہ دارالسلام میں اس حدیث کے فوائد کچھ یوں ہیں: ’’اس حدیث میں قرآن حکیم کے متعلق تین مراحل کا ذکر کیا گیا ہے: پہلا مرحلہ آپ کے سینۂ مبارک میں محفوظ طریقے سے اتارنا ہے، دوسرا مرحلہ قلب مبارک میں جمع شدہ قرآن کو زبان کے ذریعے سے پڑھنے کی توفیق دینا اور آخری مرحلہ قرآن کے مجملات کی تشریح اور مشکلات کی توضیح ہے جو احادیث (صحیحہ) کی شکل میں موجود ہے۔ ان تمام مراحل کی ذمے داری خود اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے۔‘‘ (عون الباری: ۱:۵۸) یہ یاد رہے کہ بخاری شریف کی حدیث میں نسائی شریف کی حدیث کی نسبت کچھ الفاظ زیادہ ہیں، لہٰذا اس مناسبت سے یہ تشریح کی گئی ہے۔ واللہ أعلم۔ (۳) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نزولوحی کے وقت کبھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور یہ وحی کے بوجھ کی وجہ سے تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (انا سلقی علیک قولا ثقیلا) (المزمل ۵:۷۳) ’’یقینا ہم جلد آپ پر بھاری بات ڈالیں گے۔‘‘ (۴) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلمکی ضمانت خود اٹھائی تھی کہ انھیں قرآن بھولے گا نہیں اور اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ غور سے سنتے۔ جب جبرئیل علیہ السلام اپنی قراءت مکمل کرلیتے اور واپس چلے جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو اسی طرح پڑھ کر سناتے جس طرح جبرئیل نے آپ کو پڑھایا ہوتا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (سنقرئک فلاثنسی) (الاعلی ۶:۸۷) ’’ہم جلد آپ کو پڑھائیں گے، پھر آپ بھولیں گے نہیں۔‘‘ (۵) اس حدیث مبارکہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی بھی قرآن کریم کو حفظ کرنا چاہے، وہ اللہ ی مدد اور اس کے فضل کے بغیر حفظ نہیں کرسکتا۔