كِتَابُ الِافْتِتَاحِ جَامِعُ مَا جَاءَ فِي الْقُرْآنِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْيَانًا يَأْتِينِي فِي مِثْلِ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ فَيَفْصِمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ مَا قَالَ وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِي الْمَلَكُ رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ قَالَتْ عَائِشَةُ وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا
کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل
باب: قرآن مجید کا بیان
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ حضرت حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: آپ کے پاس وحی کیسے آتی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کبھی تو وحی آنے کی کیفیت گھنٹی کی آواز کی طرح ہوتی ہے اور یہ وحی میرے لیے بہت سخت ہوتی ہے۔ جب وہ موقوف ہوتی ہے تو میں فرشتے کی وحی اچھی طرح یاد کرچکا ہوتا ہوں۔ اور کبھی فرشتہ انسانی شکل میں میرے پاس آکر مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے اور جو کچھ وہ کہتا ہے، میں یاد کر لیتا ہوں۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سخت سردی والے دن میں وحی اترتے وقت آپ کو دیکھا۔ جب وحی آپ سے موقوف ہوتی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ پھوٹ پڑتا تھا۔
تشریح :
(۱)فرشتے کا انسانی صورت اختیار کرنا احادیث صحیحہ سے بکثرت ثابت ہے۔ اس میں کوئی عقلی اشکال بھی نہیں۔ روشنی کتنے رنگ اختیار کرتی ہے، کبھی کسی رنگ میں نظر آتی ہے کبھی کسی میں، ویسے روشنی سفید ہے۔ سورج غروب و طلوع کے وقت سرخ نظر آتا ہے اور دوپہر کے وقت سخت سفید، حالانکہ وہ اس وقت کسی اور جگہ طلوع یا روب ہو رہا ہوتا ہے۔ اس کائنات کے اسرار و رموز بے شمار ہیں، اس لیے حقیقتاً واضع ہونے والی چیز سے انکار کرنا اہل عقل و خرد کا شیوہ نہیں۔ (۲) سردیوں کے موسم میں بھی پسینہ بہہ نکلنا، وحی کے ثقل کی بنا پر تھا کیونکہ وحی کو اخذ کرتے وقت آپ کو بے انتہا جسمانی قوت صرف کرنی پڑتی تھی۔ (۳) اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرتے تھے اور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی اکتاہٹ وغیرہ کے محسوس کیے بغیر انھیں جواب دیتے اور انھیں دین کی باتیں سکھاتے تھے، پھر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے جو کچھ آپ سے سیکھا اور یاد کیا اسے کوئی بات چھپائے بغیر ہم تک پہنچایا۔ واللہ الحمد علی ذلک۔ (۴) اطمینان قلب کے لیے دین کی کسی چیز کی کیفیت کے بارے میں سوال کرنا یقین کے منافی نہیں۔
(۱)فرشتے کا انسانی صورت اختیار کرنا احادیث صحیحہ سے بکثرت ثابت ہے۔ اس میں کوئی عقلی اشکال بھی نہیں۔ روشنی کتنے رنگ اختیار کرتی ہے، کبھی کسی رنگ میں نظر آتی ہے کبھی کسی میں، ویسے روشنی سفید ہے۔ سورج غروب و طلوع کے وقت سرخ نظر آتا ہے اور دوپہر کے وقت سخت سفید، حالانکہ وہ اس وقت کسی اور جگہ طلوع یا روب ہو رہا ہوتا ہے۔ اس کائنات کے اسرار و رموز بے شمار ہیں، اس لیے حقیقتاً واضع ہونے والی چیز سے انکار کرنا اہل عقل و خرد کا شیوہ نہیں۔ (۲) سردیوں کے موسم میں بھی پسینہ بہہ نکلنا، وحی کے ثقل کی بنا پر تھا کیونکہ وحی کو اخذ کرتے وقت آپ کو بے انتہا جسمانی قوت صرف کرنی پڑتی تھی۔ (۳) اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرتے تھے اور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی اکتاہٹ وغیرہ کے محسوس کیے بغیر انھیں جواب دیتے اور انھیں دین کی باتیں سکھاتے تھے، پھر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے جو کچھ آپ سے سیکھا اور یاد کیا اسے کوئی بات چھپائے بغیر ہم تک پہنچایا۔ واللہ الحمد علی ذلک۔ (۴) اطمینان قلب کے لیے دین کی کسی چیز کی کیفیت کے بارے میں سوال کرنا یقین کے منافی نہیں۔