سنن النسائي - حدیث 932

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ قَوْلُ الْمَأْمُومِ إِذَا عَطَسَ خَلْفَ الْإِمَامِ حسن أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا رِفَاعَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ عَنْ عَمِّ أَبِيهِ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ صَلَّيْتُ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَطَسْتُ فَقُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ فَقَالَ مَنْ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ فَلَمْ يُكَلِّمْهُ أَحَدٌ ثُمَّ قَالَهَا الثَّانِيَةَ مَنْ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ رِفَاعَةُ بْنُ رَافِعِ ابْنِ عَفْرَاءَ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ كَيْفَ قُلْتَ قَالَ قُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ ابْتَدَرَهَا بِضْعَةٌ وَثَلَاثُونَ مَلَكًا أَيُّهُمْ يَصْعَدُ بِهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 932

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: امام کے پیچھے مقتدی کو چھینک آئے تو وہ کیا کہے؟ حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ مجھے چھینک آئی تو میں نے (اونچی آواز میں) کہہ دیا: [الحمد للہ حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ مبارکا علیہ کما یحب ربنا و یرضی] ’’تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، بہت زیادہ تعریف، پاکیزہ اور بابرکت (یعنی باقی رہنے والی) جس قدر ہمارا رب پسند کرے اور جس پر راضی اور خوش ہو۔‘‘ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’کس آدمی نے نماز میں کلام کیا تھا؟‘‘ کسی نے جواب نہ دیا۔ پھر آآ نے دوبارہ فرمایا: ’’کس آدمی نے نماز میں کلام کیا تھا‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ میں تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’تو نے کیسے کہا تھا؟‘‘ میں نے کہا: میں نے کہا تھا: [الحمد للہ حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ مبارکا علیہ کما یحب ربنا و یرضی] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تیس سے زائد فرشتے اس کلمے کی طرف لپکے تھے کہ کون انھیں لے کر اوپر چڑھتا ہے؟‘‘
تشریح : (۱)چھینک مارنے اور رکوع سے سر اٹھانے کا وقت ایک ہی تھا جیسا کہ صحیح بخاری میں اس کی صراحت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الاذان، حدیث: ۷۹۹) (۲) چھینک بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اس سے دماغ کھل جاتا ہے۔ طبیعت چست ہو جاتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس کے لیے صرف الحمدللہ کہنا کافی ہے۔ مزید اضافہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں جیسے کہ اس روایت میں ہے۔ (۳) پہلی دفعہ جواب نہ دینا، اس ڈر کی بنا پر تھا کہ شاید میں نے غلطی کی ہے۔ (۴) اس روایت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ نماز کے دوران میں چھینک آنے پر جہراً الحمدللہ کہنا بھی درست ہے۔ واللہ أعلم۔ (۵) جب امام اپنے مقتدیوں میں کوئی نئی چیز محسوس کرے تو اس کے متعلق دریافت کرے اور مقتدیوں کو حقیقت حال سے آگاہ کرے۔ (۶) نماز میں چھینک مارنے والا الحمدللہ کہے تو اس کا جواب نہیں دیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلماور صحابہ میں سے کسی نے اس آدمی کا جواب نہیں دیا تھا۔ اگر کوئی شخص جواب دے گا تو اس کی نمازباطل ہو جائے گی۔ واللہ اعلم۔ (۷) اس حدیث مبارکہ سے مذکورہ ذکر کی فضیلت بھی واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ ذکر بہت پسند ہے۔ (۱)چھینک مارنے اور رکوع سے سر اٹھانے کا وقت ایک ہی تھا جیسا کہ صحیح بخاری میں اس کی صراحت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الاذان، حدیث: ۷۹۹) (۲) چھینک بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اس سے دماغ کھل جاتا ہے۔ طبیعت چست ہو جاتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس کے لیے صرف الحمدللہ کہنا کافی ہے۔ مزید اضافہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں جیسے کہ اس روایت میں ہے۔ (۳) پہلی دفعہ جواب نہ دینا، اس ڈر کی بنا پر تھا کہ شاید میں نے غلطی کی ہے۔ (۴) اس روایت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ نماز کے دوران میں چھینک آنے پر جہراً الحمدللہ کہنا بھی درست ہے۔ واللہ أعلم۔ (۵) جب امام اپنے مقتدیوں میں کوئی نئی چیز محسوس کرے تو اس کے متعلق دریافت کرے اور مقتدیوں کو حقیقت حال سے آگاہ کرے۔ (۶) نماز میں چھینک مارنے والا الحمدللہ کہے تو اس کا جواب نہیں دیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلماور صحابہ میں سے کسی نے اس آدمی کا جواب نہیں دیا تھا۔ اگر کوئی شخص جواب دے گا تو اس کی نمازباطل ہو جائے گی۔ واللہ اعلم۔ (۷) اس حدیث مبارکہ سے مذکورہ ذکر کی فضیلت بھی واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ ذکر بہت پسند ہے۔