سنن النسائي - حدیث 93

صِفَةُ الْوُضُوءِ عَدَدُ غَسْلِ الْوَجْهِ صحيح أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَهُوَ ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ مَالِكِ بْنِ عُرْفُطَةَ عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ أُتِيَ بِكُرْسِيٍّ فَقَعَدَ عَلَيْهِ ثُمَّ دَعَا بِتَوْرٍ فِيهِ مَاءٌ فَكَفَأَ عَلَى يَدَيْهِ ثَلَاثًا ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ بِكَفٍّ وَاحِدٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا وَغَسَلَ ذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا وَأَخَذَ مِنْ الْمَاءِ فَمَسَحَ بِرَأْسِهِ وَأَشَارَ شُعْبَةُ مَرَّةً مِنْ نَاصِيَتِهِ إِلَى مُؤَخَّرِ رَأْسِهِ ثُمَّ قَالَ لَا أَدْرِي أَرَدَّهُمَا أَمْ لَا وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى طُهُورِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَذَا طُهُورُهُ و قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ هَذَا خَطَأٌ وَالصَّوَابُ خَالِدُ بْنُ عَلْقَمَةَ لَيْسَ مَالِكَ بْنَ عُرْفُطَةَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 93

کتاب: وضو کا طریقہ چہرہ کتنی دفعہ دھویا جائے؟ حضرت عبد خیر سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک کرسی لائی گئی، آپ اس پر بیٹھ گئے، پھر پانی کا ایک تھال منگوایا، آپ نے اپنے ہاتھوں پر تنی دفعہ پانی انڈیلا، پھر ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا۔ یہ تین بار کیا۔ اور اپنا چہرہ تین دفعہ دھویا اور اپنے بازو تین تین دفعہ دھوئے، پھر کچھ پانی لیا اور سر کا مسح کیا، شعبہ نے ایک بار پیشانی سے لے کر سر کے پخر تک اشارہ کیا، پھر کیا: مجھے معلوم نہیں کہ پھر (ہاتھوں کو) لوٹایا تھا یا نہیں۔ اور تین تین دفعہ اپنے پاؤں دھوئے، پھر فرمایا: جو شخص پسند کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو دیکھے تو وہ جان لے کہ یہ آپ کا وضو ہے۔ امام ابوعبدالرحمن (نسائی) رحمہ اللہ لکھتے ہیں: (سند میں) یہ غلطی ہے۔ صحیح نام خالد بن علقمہ ہے نہ کہ مالک بن عرفطہ۔
تشریح : (۱) سند میں حضرت شعبہ نے اپنے استاد کا نام مالک بن عرفطہ ذکر کیا ہے، لیکن یہ ان کی غلطی ہے۔ محدثین کا اتفاق ہے کہ ان کا نام خالد بن علقمہ ہے۔ شعبہ اگرچہ اعلیٰ پائے کے محدث ہیں مگر غلطی ہر ایک سے ممکن ہے۔ سابقہ دو احادیث میں زائدہ اور ابو عوانہ نے صحیح نام بیان کیا ہے، لہٰذا امام صاحب نے وضاحت فرما دی۔ (۲) [یکف واحد] اس کا ایک ترجمہ تو ’’ایک ہتھیلی سے‘‘ ہے، یعنی کلی اور استنشاق دونوں داہنے ہاتھ سے کیے۔ دوسرا ترجمہ ہے ایک ہی چلو سے، یعنی ایک دفعہ پانی لے کر کچھ حصہ منہ میں اور کچھ حصہ ناک میں ڈالا، اور یہی درست ہے۔ اسے وصل کہتے ہیں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ بعض علماء نے الگ الگ پانی لینا بہتر قرار دیا ہے اور بعض نے ایک ہی چلو سے دونوں عمل کرنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اس کی بابت یوں فرماتے ہیں کہ اگر دونوں کام ایک ہی چلو سے کر لیے جائیں تو جائز ہے لیکن ہمیں الگ الگ پانی لینا زیادہ پسند ہے۔ دیکھیے: (جامع الترمذی، الطھارۃ، حدیث: ۲۸) تاہم حدیث کی رو سے زیادہ بہتر یہی ہے کہ ایک ہی چلو سے کلی کی جائے اور ناک میں پانی ڈالا جائے کیونکہ ایک ہی چلو سے کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے والی روایات سند کے لحاظ سے زیادہ قوی اور مستند ہیں۔ واللہ أعلم۔ (۱) سند میں حضرت شعبہ نے اپنے استاد کا نام مالک بن عرفطہ ذکر کیا ہے، لیکن یہ ان کی غلطی ہے۔ محدثین کا اتفاق ہے کہ ان کا نام خالد بن علقمہ ہے۔ شعبہ اگرچہ اعلیٰ پائے کے محدث ہیں مگر غلطی ہر ایک سے ممکن ہے۔ سابقہ دو احادیث میں زائدہ اور ابو عوانہ نے صحیح نام بیان کیا ہے، لہٰذا امام صاحب نے وضاحت فرما دی۔ (۲) [یکف واحد] اس کا ایک ترجمہ تو ’’ایک ہتھیلی سے‘‘ ہے، یعنی کلی اور استنشاق دونوں داہنے ہاتھ سے کیے۔ دوسرا ترجمہ ہے ایک ہی چلو سے، یعنی ایک دفعہ پانی لے کر کچھ حصہ منہ میں اور کچھ حصہ ناک میں ڈالا، اور یہی درست ہے۔ اسے وصل کہتے ہیں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ بعض علماء نے الگ الگ پانی لینا بہتر قرار دیا ہے اور بعض نے ایک ہی چلو سے دونوں عمل کرنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اس کی بابت یوں فرماتے ہیں کہ اگر دونوں کام ایک ہی چلو سے کر لیے جائیں تو جائز ہے لیکن ہمیں الگ الگ پانی لینا زیادہ پسند ہے۔ دیکھیے: (جامع الترمذی، الطھارۃ، حدیث: ۲۸) تاہم حدیث کی رو سے زیادہ بہتر یہی ہے کہ ایک ہی چلو سے کلی کی جائے اور ناک میں پانی ڈالا جائے کیونکہ ایک ہی چلو سے کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے والی روایات سند کے لحاظ سے زیادہ قوی اور مستند ہیں۔ واللہ أعلم۔