سنن النسائي - حدیث 926

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ جَهْرُ الْإِمَامِ بِآمِينَ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ عَنْ الزُّبَيْدِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَّنَ الْقَارِئُ فَأَمِّنُوا فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تُؤَمِّنُ فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 926

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: امام ’’آمین‘‘ بلند آواز سے کہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب پڑھنے والا (امام) آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، چنانچہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی، اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کردیتا ہے۔
تشریح : (۱)معلوم ہوا امام صاحب آمین اونچی آواز سے کہیں تاکہ دوسرے لوگ بھی کہہ سکیں۔ ابوداود میں صریح اور صحیح روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (ولاالضالین) کہتے تو آمین کہتے اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے۔ (سنن ابی داود، الصلاۃ، حدیث:۹۳۲) امام شافعی، احمد اور اسحاق رحم اللہ علیہم کا یہی مسلک ہے۔ (۲) فرشتوں کی آمین سے ملنے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ایک وقت میں ہوں، لہٰذا تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ امام اور مقتدیوں کی آمین متصل ہونی چاہیے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ’’جب امام (غیرالمغضوب علیہم ولاالضالین) کہے تو تم آمین کہو۔‘‘ (صحیح البخاری، الاذان، حدیث: ۷۸۲، وصحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث:۴۱۰)، البتہ مقتدیوں کو امام کی آواز سن کر آمین شروع کرنی چاہیے، امام سے پہل کرنا درست نہیں۔ (۳)بعض حضرات نے [اذا قال الامام: (ولاالضالین)، فقولوا: امین] سے استدلال کیا ہے کہ سورۂ فاتحہ امام ہی پڑھے گا اور مقتدی صرف آمین کہے گا۔ لیکن یہ استدلال احادیث صحیحہ متواترہ کے خلاف ہے۔ سورۂ فاتحہ کے وجوب کے دلائل بے شمار ہیں جن میں سے بعض کا احاطہ سابقہ احادیث میں بھی ہوچکا ہے، لہٰذا سورۂ فاتحہ نماز کا رکن ہے جس کے بغیر کسی کی کوئی نماز نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم۔ (۴)اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سورۂ فاتحہ کے اختتام پر صرف آمین کہنی چاہیے، اس سے زائد الفاظ کہنا درست نہیں کیونکہ جن روایاتِ آمین میں زائد الفاظ ہیں، وہ روایات ضعیف ہیں: مثلاً : امام بیہقی رحمہ اللہ نے وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، جب آپ نے (غیرالمغضوب علیہم ولاالضالین) پڑھا تو [رب اغفرلی آمین] کہا۔ (السنن الکبریٰ بیہقی:۲؍۵۸) یہ روایت ابوبکر نبشلی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ (۵)اس حدیث میں امامیہ فرقے کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ نماز میں آمین کہنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔ (۱)معلوم ہوا امام صاحب آمین اونچی آواز سے کہیں تاکہ دوسرے لوگ بھی کہہ سکیں۔ ابوداود میں صریح اور صحیح روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (ولاالضالین) کہتے تو آمین کہتے اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے۔ (سنن ابی داود، الصلاۃ، حدیث:۹۳۲) امام شافعی، احمد اور اسحاق رحم اللہ علیہم کا یہی مسلک ہے۔ (۲) فرشتوں کی آمین سے ملنے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ایک وقت میں ہوں، لہٰذا تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ امام اور مقتدیوں کی آمین متصل ہونی چاہیے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ’’جب امام (غیرالمغضوب علیہم ولاالضالین) کہے تو تم آمین کہو۔‘‘ (صحیح البخاری، الاذان، حدیث: ۷۸۲، وصحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث:۴۱۰)، البتہ مقتدیوں کو امام کی آواز سن کر آمین شروع کرنی چاہیے، امام سے پہل کرنا درست نہیں۔ (۳)بعض حضرات نے [اذا قال الامام: (ولاالضالین)، فقولوا: امین] سے استدلال کیا ہے کہ سورۂ فاتحہ امام ہی پڑھے گا اور مقتدی صرف آمین کہے گا۔ لیکن یہ استدلال احادیث صحیحہ متواترہ کے خلاف ہے۔ سورۂ فاتحہ کے وجوب کے دلائل بے شمار ہیں جن میں سے بعض کا احاطہ سابقہ احادیث میں بھی ہوچکا ہے، لہٰذا سورۂ فاتحہ نماز کا رکن ہے جس کے بغیر کسی کی کوئی نماز نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم۔ (۴)اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سورۂ فاتحہ کے اختتام پر صرف آمین کہنی چاہیے، اس سے زائد الفاظ کہنا درست نہیں کیونکہ جن روایاتِ آمین میں زائد الفاظ ہیں، وہ روایات ضعیف ہیں: مثلاً : امام بیہقی رحمہ اللہ نے وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، جب آپ نے (غیرالمغضوب علیہم ولاالضالین) پڑھا تو [رب اغفرلی آمین] کہا۔ (السنن الکبریٰ بیہقی:۲؍۵۸) یہ روایت ابوبکر نبشلی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ (۵)اس حدیث میں امامیہ فرقے کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ نماز میں آمین کہنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔