سنن النسائي - حدیث 922

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ حسن صحيح أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ التِّرْمِذِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 922

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان: ’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اورخ اموش رہو تاکہ تم رحم کیے جائو۔‘‘ کی تفسیر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہٰذا جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو اور جب وہ [سمع اللہ لمن حمدہ] کہے تو تم [اللھم ربنا لک الحمد] کہو۔‘‘
تشریح : [فاذا اکبر فکبروا] ’’جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو۔‘‘ میں ’’فاء‘‘تعقیب کے لیے ہے، یعنی تکبیر امام سے پہلے نہ برابر بلکہ امام کے فوری بعد کہو۔ اس کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے، آپ نے فرمایا: ’’امام اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، لہٰذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب تک وہ تکبیر نہ کہہ لے تم تکبیر نہ کہو۔ اور جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جائو۔ اور اس وقت تک تم رکوع میں نہ جاؤ جب تک کہ وہ رکوع کے لیے جھک نہ جائے۔ اور جب وہ [سمع اللہ لمن حمدہ] کہے تو تم کہو: [اللھم ربنا لک الحمد] مسلم بن ابراہیم [ولک الحمد] کے الفاظ بیان کرتے ہیں۔ (اس کی مزید تفصیل آگے آئے گی۔ ان شاء اللہ) اور جب وہ سجدہ کرےتو تم بھی سجدہ کرو۔ اور اس وقت تک تم سجدے کے لیے نہ جھکو جب تک کہ وہ سجدے میں چلا نہ جائے۔‘‘ (سنن ابی داود، الصلاۃ، حدیث:۶۰۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی مخالفت ہوتی ہے جس سے نماز کا ثواب بھی ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ واللہ اعلم۔ [فاذا اکبر فکبروا] ’’جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو۔‘‘ میں ’’فاء‘‘تعقیب کے لیے ہے، یعنی تکبیر امام سے پہلے نہ برابر بلکہ امام کے فوری بعد کہو۔ اس کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے، آپ نے فرمایا: ’’امام اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، لہٰذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب تک وہ تکبیر نہ کہہ لے تم تکبیر نہ کہو۔ اور جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جائو۔ اور اس وقت تک تم رکوع میں نہ جاؤ جب تک کہ وہ رکوع کے لیے جھک نہ جائے۔ اور جب وہ [سمع اللہ لمن حمدہ] کہے تو تم کہو: [اللھم ربنا لک الحمد] مسلم بن ابراہیم [ولک الحمد] کے الفاظ بیان کرتے ہیں۔ (اس کی مزید تفصیل آگے آئے گی۔ ان شاء اللہ) اور جب وہ سجدہ کرےتو تم بھی سجدہ کرو۔ اور اس وقت تک تم سجدے کے لیے نہ جھکو جب تک کہ وہ سجدے میں چلا نہ جائے۔‘‘ (سنن ابی داود، الصلاۃ، حدیث:۶۰۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی مخالفت ہوتی ہے جس سے نماز کا ثواب بھی ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ واللہ اعلم۔