سنن النسائي - حدیث 920

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ تَرْكُ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِيمَا جَهَرَ بِهِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ ابْنِ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ هَلْ قَرَأَ مَعِي أَحَدٌ مِنْكُمْ آنِفًا قَالَ رَجُلٌ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِنِّي أَقُولُ مَا لِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ قَالَ فَانْتَهَى النَّاسُ عَنْ الْقِرَاءَةِ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقِرَاءَةِ مِنْ الصَّلَاةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 920

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: امام کے پیچھے اس نماز میں قراءت نہ کرنا جس میں امام بلند آواز سےپڑھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نماز سے فارغ وئے اور جس میں آپ نے بلندآواز سے قراءت کی تھی تو آپ نے فرمایا: ’’کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ ابھی کچھ پڑھا ہے؟‘‘ ایک آدمی نے کہا: ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ’’میں بھی کہتا تھا، کیا وجہ ہے کہ مجھے قرآن مجید پڑھنے میں دقت ہورہی ہے؟‘‘ اس (امام زہری) نے کہا: تو جب انھوں نے آپ کی یہ بات سنی اس کے بعد وہ اس نماز میں قراءت کرنے سے رک گئے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے قراءت کرتے تھے۔
تشریح : اس روایت میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار مقتدی کے اونچا پڑھنے پر تھا کیونکہ امام کو دقت تبھی پیش آئے گی جب کسی کی گن گن اس تک پہنچتی ہوگی۔ اگر وہ آہستہ پڑھے، اس کی آواز کسی کو نہ سنائی دے تو اس سے کسی کو کیا خلجان یا منازعت ہوسکتی ہے؟ البتہ جہری نماز میںمقتدیوں کو فاتحہ سے زائد پرھنے سے صراحتاً روکا گیا ہے، لہٰذا جہری نمازوں میں مقتدی سورۂ فاتحہ سے زائد نہیں پڑھ سکتا، نہ جہراً نہ سراً۔ آخری قول سے مراد بھی سورۂ فاتحہ سے زائد قراءت ہے جس سے لوگ رک گئے۔ باقی رہی سورۂ فاتحہ تو خود راویٔ حدیث میں اس کے پڑھنے کا فتویٰ دیتے تھے۔ (دیکھیے، حدیث:۹۱۰) یاد رہے کہ یہ آخری قول امام زہری کا ہے جو صغار تابعین میں سے ہیں۔ حافظ ابن حجر، امام ابن قیم اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے امام بخاری، امام مالک، امام ابوداود، امام ترمذی اور امام بیہقی رحمہ اللہ جیسے عظیم محدثین اور ائمہ، جرح و تعدیل کے اقوال نقل کیے ہیں کہ یہ امام زہری کا اپنا کلام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں۔ دیکھیے: (التلخیص الجبیر، رقم:۳۴۴، عیون المعبود:۳؍۵۰۔۵۲) واللہ اعلم۔ انھوں نے یہ بات : [فانتھی الناس عن القراءۃ۔۔۔الخ] کس سے سنی؟ یہ صراحت نہیں، لہٰذا یہ مرسل ہے اور [مراسیل الزھری کالریح] ’’زہری کی مرسل روایات ہوا کی طرح ہیں‘‘ لہٰذا ان کا یہ قول بھی ہوا کی طرح ہے۔ اس روایت میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار مقتدی کے اونچا پڑھنے پر تھا کیونکہ امام کو دقت تبھی پیش آئے گی جب کسی کی گن گن اس تک پہنچتی ہوگی۔ اگر وہ آہستہ پڑھے، اس کی آواز کسی کو نہ سنائی دے تو اس سے کسی کو کیا خلجان یا منازعت ہوسکتی ہے؟ البتہ جہری نماز میںمقتدیوں کو فاتحہ سے زائد پرھنے سے صراحتاً روکا گیا ہے، لہٰذا جہری نمازوں میں مقتدی سورۂ فاتحہ سے زائد نہیں پڑھ سکتا، نہ جہراً نہ سراً۔ آخری قول سے مراد بھی سورۂ فاتحہ سے زائد قراءت ہے جس سے لوگ رک گئے۔ باقی رہی سورۂ فاتحہ تو خود راویٔ حدیث میں اس کے پڑھنے کا فتویٰ دیتے تھے۔ (دیکھیے، حدیث:۹۱۰) یاد رہے کہ یہ آخری قول امام زہری کا ہے جو صغار تابعین میں سے ہیں۔ حافظ ابن حجر، امام ابن قیم اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے امام بخاری، امام مالک، امام ابوداود، امام ترمذی اور امام بیہقی رحمہ اللہ جیسے عظیم محدثین اور ائمہ، جرح و تعدیل کے اقوال نقل کیے ہیں کہ یہ امام زہری کا اپنا کلام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں۔ دیکھیے: (التلخیص الجبیر، رقم:۳۴۴، عیون المعبود:۳؍۵۰۔۵۲) واللہ اعلم۔ انھوں نے یہ بات : [فانتھی الناس عن القراءۃ۔۔۔الخ] کس سے سنی؟ یہ صراحت نہیں، لہٰذا یہ مرسل ہے اور [مراسیل الزھری کالریح] ’’زہری کی مرسل روایات ہوا کی طرح ہیں‘‘ لہٰذا ان کا یہ قول بھی ہوا کی طرح ہے۔