سنن النسائي - حدیث 918

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ تَرْكُ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِيمَا لَمْ يَجْهَرْ فِيهِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ فَقَرَأَ رَجُلٌ خَلْفَهُ سَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى فَلَمَّا صَلَّى قَالَ مَنْ قَرَأَ سَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى قَالَ رَجُلٌ أَنَا قَالَ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ بَعْضَكُمْ قَدْ خَالَجَنِيهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 918

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: امام کے پیچھے اس نماز میں قراءت نہ کرنا جس میں امام بلند آواز سے نہ پڑھے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ ایک آدمی نے آپ کے پیچھے سورت (سبح اسم ربک الاعلی) پڑھی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’سورت (سبح اسم ربک الاعلی) کس نے پڑھی تھی؟‘‘ اس آدمی نے کہا: میں نے۔ آپ نے فرمایا: ’’تحقیق مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ تم میں سے کسی نے مجھے خلجان میں ڈالا ہے۔‘‘
تشریح : (۱)حضرت عمران کا یہ کہنا کہ ’’ایک آدمی نے آپ کے پیچھے سورۃ الاعلیٰ پڑھی۔‘‘ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نے کچھ اونچی میں پڑھی تھی، تبھی تو راویٔ حدیث نے سنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ’’کسی نے مجھے خلجان شک و اشتباہ اور اختلاط) میں ڈالا ہے۔‘‘ بھی اسی کے مؤید ہیں کہ اس نے کچھ اونچی آواز سے پڑھنے پر ہے جس سے کسی ساتھی یا امام کو تشویش ہو۔ اگر آہستہ پڑھنے کہ کسی سنائی نہ دے تو کوئی حرج نہیں۔ (۲)سی نماز میں سورۂ فاتحہ کے علاوہ زائد سورت بھی پڑھ سکتا ہے، لہٰذا باب میں امام صاحب رحمہ اللہ کے الفاظ ’’قراءت نہ کرنا‘‘ سے مراد ہے، بلندآواز سے نہ پڑھنا یا فاتحہ سے زائد نہ پڑھنا۔ (۱)حضرت عمران کا یہ کہنا کہ ’’ایک آدمی نے آپ کے پیچھے سورۃ الاعلیٰ پڑھی۔‘‘ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نے کچھ اونچی میں پڑھی تھی، تبھی تو راویٔ حدیث نے سنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ’’کسی نے مجھے خلجان شک و اشتباہ اور اختلاط) میں ڈالا ہے۔‘‘ بھی اسی کے مؤید ہیں کہ اس نے کچھ اونچی آواز سے پڑھنے پر ہے جس سے کسی ساتھی یا امام کو تشویش ہو۔ اگر آہستہ پڑھنے کہ کسی سنائی نہ دے تو کوئی حرج نہیں۔ (۲)سی نماز میں سورۂ فاتحہ کے علاوہ زائد سورت بھی پڑھ سکتا ہے، لہٰذا باب میں امام صاحب رحمہ اللہ کے الفاظ ’’قراءت نہ کرنا‘‘ سے مراد ہے، بلندآواز سے نہ پڑھنا یا فاتحہ سے زائد نہ پڑھنا۔