سنن النسائي - حدیث 912

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ إِيجَابُ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِي الصَّلَاةِ صحيح أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 912

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنی واجب (فرض) ہے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ یا کچھ زائد قراءت نہیں پڑھتا۔‘‘
تشریح : (۱)نماز صحیح ہونے کی دو صورتیں بیان کی گئی ہیں: ۱۔صرف سورۂ فاتحہ پڑھنا۔ ۲۔سورۂ فاتحہ سے زائد بھی پڑھنا۔ گویا صرف فاتحہ فرض ہے، زائد قراءت فرض نہیں، اس کے بغیر بھی نماز ہوجائے گی۔ یہ محدثین کا مسلک ہے۔ احناف کے نزدیک فاتحہ پڑھنا واجب ہےا ور فاتحہ کے بعد اور سورت پڑھنا فرض ہے، یعنی وہ فرض اور واجب میں فرق کرتے ہیں۔ احناف کے نزدیک فاتحہ نہ پڑھنے سے نماز ناقص ہوگی جس کی تلافی سجدۂ سہو سے کی جائے گی جب کہ محدثین کے نزدیک سورۂ فاتحہ ہر ایک کے لیے ضروری ہے، مقتدی کی صرف فاتحہ والی نماز ہوگی کیونکہ اس کے لیے جہری نمازوں میں سورۂ فاتحہ سے زائد پڑھنا منع ہے اور فاتحہ سے زائد والی نماز امام اور منفرد کی ہوگی۔ دونوں نمازیں بالکل صحیح ہیں۔ معلوم ہوا کہ مقتدی کو امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنی چاہیے تاکہ وہ اس حدیث پر عمل کرسکے۔ (۲)بعض لوگوں نے اس حدیث کے غلط معنی کیے ہیں کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ اور زائد نہیں پڑھتا۔ گویا فاتحہ کے بغیر بھی نماز نہیں اور فاتحہ سے زائد کے بغیر بھی نماز نہیں۔ دونوں فرض ہیں مگر یہ معنی کرنا لغت عربیہ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں۔ اسی قسم کی ایک اور حدیث ہے جس سے معنی مزید واضح ہوگا: [لا تقطع ید سارق الا فی ربع دینار قصاعدا] (صحیح البخاری، الحدود، حدیث:۶۷۸۹، وصحیح مسلم، الحدود، حدیث:۱۶۸۴) ’’چور کا ہاتھ چوتھائی دینار ی اس سے زائد کے بغیر نہیں کاٹا جائے گا۔‘‘ یعنی ہاتھ کاٹنے کے لیے چوتھائی دینار کی چوری کافی ہے۔ زائد ہو تب بھی کاٹیں گے نہ ہو تب بھی۔ اس طرح متعلقہ حدیث کے معنی ہیں کہ نماز کی صحت کے لیے سورت فاتحہ کی قراءت کافی ہے۔ زائد ہو تب بھی نماز ہوجائے گی، نہ ہو تب بھی۔ زائد سے اس وقت جب نمازی منفرد یا امام ہو اور صرف فاتحہ سے اس وقت جب نمازی مقتدی ہو۔ (۳)سورۂ فاتحہ کی قراءت ہر رکعت میں ضروری ہے، نہ کہ ساری نماز میں ایک دفعہ۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیئی الصلاۃ کو نماز سکھانے کے بعد کہا تھا: [افعل ذلک فی صلاتک کلھا] (صحیح البخاری، الاذان، حدیث:۷۵۷) ’’یہ کام اپنی ساری نماز (ہررکعت) میں کر۔‘‘ احناف نے بغیر کسی دلیل کے فرض نماز کی آخری دورکعات میں قراءت فاتحہ یا مطلق قراءت کو ضروری قرار نہیں دیا بلکہ کوئی نمازی حتی کہ امام بھی آخری دورکعات میں (رباعی نماز میں) قراءت کے بجائے خاموش کھڑا رہے تو اس کی نماز احناف کے نزدیک قطعاً صحیح ہوگی۔ حیرانی کی بات ہے کہ بغیر کسی شرعی دلیل کے اتنا بڑ خطرہ مول لیا گیا! (۴)’’نماز نہیں ہوتی۔‘‘ احناف معنی کرتے ہیں کہ ’’کامل نہیں ہوتی‘‘ حالانکہ اگر یہ معنی کریں تو لازم آئے گا کہ فاتحہ واجب بھی نہ ہو کیونکہ کمال کی نفی تو سنت کے ترک سے ہوتی ہے جب کہ فاتحہ پڑھنا احناف کے نزدیک واجب ہے، سوائے مقتدی کے کہتے ہیں: مطلق قراءت قرآن فرض ہے، فاتحہ واجب ہے۔ گر کوئی ا ور سورت پڑھ لے، فاتحہ نہ پڑھے تو نماز ہوجائے گی مگر سجدۂ سہو لازم ہوگا کیونکہ قرآن مجید میں تو آخری قعدہ اور تشہد کا بھی ذکر نہیں تو وہ فرض بھی نہ ہونا چاہیے، نیز یہ آیت کون سی نماز کی قراءت کے بارے میں اتری ہے؟ پھر یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ حدیث قرآن کی تفسیر ہے۔ اس کے ابہام کو دور کرتی ہے۔ اس کے اشکال کو واضح کرتی ہے۔ اگر اس قسم کے واضح الفاظ قرآن کی تفسیر نہیں بن سکتے تو حدیث کو تفسیر کہنے کا کیا فائدہ؟ غور فرمائیں۔ (۱)نماز صحیح ہونے کی دو صورتیں بیان کی گئی ہیں: ۱۔صرف سورۂ فاتحہ پڑھنا۔ ۲۔سورۂ فاتحہ سے زائد بھی پڑھنا۔ گویا صرف فاتحہ فرض ہے، زائد قراءت فرض نہیں، اس کے بغیر بھی نماز ہوجائے گی۔ یہ محدثین کا مسلک ہے۔ احناف کے نزدیک فاتحہ پڑھنا واجب ہےا ور فاتحہ کے بعد اور سورت پڑھنا فرض ہے، یعنی وہ فرض اور واجب میں فرق کرتے ہیں۔ احناف کے نزدیک فاتحہ نہ پڑھنے سے نماز ناقص ہوگی جس کی تلافی سجدۂ سہو سے کی جائے گی جب کہ محدثین کے نزدیک سورۂ فاتحہ ہر ایک کے لیے ضروری ہے، مقتدی کی صرف فاتحہ والی نماز ہوگی کیونکہ اس کے لیے جہری نمازوں میں سورۂ فاتحہ سے زائد پڑھنا منع ہے اور فاتحہ سے زائد والی نماز امام اور منفرد کی ہوگی۔ دونوں نمازیں بالکل صحیح ہیں۔ معلوم ہوا کہ مقتدی کو امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنی چاہیے تاکہ وہ اس حدیث پر عمل کرسکے۔ (۲)بعض لوگوں نے اس حدیث کے غلط معنی کیے ہیں کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ اور زائد نہیں پڑھتا۔ گویا فاتحہ کے بغیر بھی نماز نہیں اور فاتحہ سے زائد کے بغیر بھی نماز نہیں۔ دونوں فرض ہیں مگر یہ معنی کرنا لغت عربیہ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں۔ اسی قسم کی ایک اور حدیث ہے جس سے معنی مزید واضح ہوگا: [لا تقطع ید سارق الا فی ربع دینار قصاعدا] (صحیح البخاری، الحدود، حدیث:۶۷۸۹، وصحیح مسلم، الحدود، حدیث:۱۶۸۴) ’’چور کا ہاتھ چوتھائی دینار ی اس سے زائد کے بغیر نہیں کاٹا جائے گا۔‘‘ یعنی ہاتھ کاٹنے کے لیے چوتھائی دینار کی چوری کافی ہے۔ زائد ہو تب بھی کاٹیں گے نہ ہو تب بھی۔ اس طرح متعلقہ حدیث کے معنی ہیں کہ نماز کی صحت کے لیے سورت فاتحہ کی قراءت کافی ہے۔ زائد ہو تب بھی نماز ہوجائے گی، نہ ہو تب بھی۔ زائد سے اس وقت جب نمازی منفرد یا امام ہو اور صرف فاتحہ سے اس وقت جب نمازی مقتدی ہو۔ (۳)سورۂ فاتحہ کی قراءت ہر رکعت میں ضروری ہے، نہ کہ ساری نماز میں ایک دفعہ۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیئی الصلاۃ کو نماز سکھانے کے بعد کہا تھا: [افعل ذلک فی صلاتک کلھا] (صحیح البخاری، الاذان، حدیث:۷۵۷) ’’یہ کام اپنی ساری نماز (ہررکعت) میں کر۔‘‘ احناف نے بغیر کسی دلیل کے فرض نماز کی آخری دورکعات میں قراءت فاتحہ یا مطلق قراءت کو ضروری قرار نہیں دیا بلکہ کوئی نمازی حتی کہ امام بھی آخری دورکعات میں (رباعی نماز میں) قراءت کے بجائے خاموش کھڑا رہے تو اس کی نماز احناف کے نزدیک قطعاً صحیح ہوگی۔ حیرانی کی بات ہے کہ بغیر کسی شرعی دلیل کے اتنا بڑ خطرہ مول لیا گیا! (۴)’’نماز نہیں ہوتی۔‘‘ احناف معنی کرتے ہیں کہ ’’کامل نہیں ہوتی‘‘ حالانکہ اگر یہ معنی کریں تو لازم آئے گا کہ فاتحہ واجب بھی نہ ہو کیونکہ کمال کی نفی تو سنت کے ترک سے ہوتی ہے جب کہ فاتحہ پڑھنا احناف کے نزدیک واجب ہے، سوائے مقتدی کے کہتے ہیں: مطلق قراءت قرآن فرض ہے، فاتحہ واجب ہے۔ گر کوئی ا ور سورت پڑھ لے، فاتحہ نہ پڑھے تو نماز ہوجائے گی مگر سجدۂ سہو لازم ہوگا کیونکہ قرآن مجید میں تو آخری قعدہ اور تشہد کا بھی ذکر نہیں تو وہ فرض بھی نہ ہونا چاہیے، نیز یہ آیت کون سی نماز کی قراءت کے بارے میں اتری ہے؟ پھر یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ حدیث قرآن کی تفسیر ہے۔ اس کے ابہام کو دور کرتی ہے۔ اس کے اشکال کو واضح کرتی ہے۔ اگر اس قسم کے واضح الفاظ قرآن کی تفسیر نہیں بن سکتے تو حدیث کو تفسیر کہنے کا کیا فائدہ؟ غور فرمائیں۔